ہمارے چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کی زندگی کا افتخار آمیز دور، آپؑ کی اسیری کا دور ہے۔ البتہ امام زین العابدین علیہ السلام دو مرتبہ اسیر ہوئے اور دونوں مرتبہ آپؑ کو طوق و زنجیر میں جکڑ کر شام لے جایا گیا۔ پہلی مرتبہ کربلا سے اور دوسری مرتبہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں مدینہ سے گرفتار کیا گیا۔ جب کربلا سے گرفتار کر کے قافلۂ حسینیؑ کے دوسرے اسیروں کے ساتھ آپؑ کو شام لے جایا گیا تو آپؑ مجسمۂ قرآن اور اسلام تھے۔
جب شہدائے کربلا خاک و خوں میں غلطاں ہوئے، تب امام زین العابدین علیہ السلام کی تحریک کا آغاز ہوا۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں، معصوم بچے، بے سہارا عورتیں، امامؑ کے اردگرد جمع تھیں۔ اِس کاروان میں امام زین العابدین علیہ السلام کے علاوہ کوئی دوسرا مرد نہیں تھا، امام تنہا ہی ان سب کی راہنمائی کر رہے تھے، انہیں جمع کرتے تھے، یہاں تک کہ اسیروں کے شام پہنچنے تک پورے راستے میں اِن کی دیکھ بھال کرتے رہے اور ان لوگوں کو جو ایمان کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے، ایک لمحے کے لیے بھی شک و تردید میں مبتلا نہ ہونے دیا۔
جب امام زین العابدین علیہ السلام کوفے میں داخل ہوئے تو عبید اللہ بن زیاد، جس نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ اِس خاندان کے تمام مردوں کو قتل کر دیا جائے، نے دیکھا کہ اسیروں کے قافلے میں ایک مرد بھی موجود ہے؛ اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ امامؑ نے فرمایا: میں علی ابنِ حسین علیہما السلام ہوں۔ اِس نے امامؑ کو قتل کی دھمکی دی۔ یہ پہلا موقع تھا جب امام زین العابدین علیہ السلام نے امامت اور معنویت کے جوہر دکھاتے ہوئے فرمایا: ’’أَ بِالقَتلِ تُھَدِّدُنِی‘‘ کیا تو ہمیں موت سے ڈراتا ہے؟ جبکہ ہم تو شہادت کو اپنے لیے کرامت اور راہِ خدا میں قتل ہونا باعثِ افتخار سمجھتے ہیں۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے ہیں، امامؑ کے اِس سخت موقف کے سامنے عُبید اللہ کو خاموش ہونا پڑا۔
حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 216 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی