بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین احمده و استعینه و استغفره و اتوکّل علیه و اصلّی و اسلّم على حبیبه الرّسول الاعظم سیّدنا محمّدٍ المصطفى و آله الطّاهرین سیّما علیٍّ امیرالمؤمنین و حبیبته الزّهراء المرضیّة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علیّبنالحسین زینالعابدین و محمّدبنعلیّ الباقر و جعفربنمحمّدٍ الصّادق و موسىبنجعفرٍ الکاظم و علیّبنموسى الرّضا و محمّدبنعلیٍّ الجواد و علیّبنمحمّدٍ الهادی و الحسنبنعلیّ الزّکیّ العسکریّ و الحجّةبنالحسن القائم المهدیّ صلوات الله علیهم اجمعین و اسلّم على صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الى یوم الدّین و على حماة المستضعفین و ولاة المؤمنین.
میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے بھائی اور اپنے عزیز اور میرا فخر، دنیائے اسلام کا محبوب چہرہ اور خطے کی اقوام کی فصیح زبان، لبنان کا درخشاں گوہر جناب سید حسن نصر اللہ (رضوان اللہ علیہ) کو نمازِ جمعہ تہران میں خراجِ تحسین پیش کروں اور سب کے سامنے کچھ نکات بھی بیان کروں۔
اس خطبے کا مخاطب، پورا عالم اسلام ہے، لیکن لبنانی اور فلسطینی عزیز قوم خصوصی مخاطب ہیں۔ ہم سب سید عزیز کی شہادت پر غمزدہ اور سوگوار ہیں۔ یہ ایک عظیم فقدان ہے اور اس (حادثے) نےحقیقی معنوں میں ہمیں عزادار بنایا ہے۔ یقیناً ہماری عزاداری کا مطلب، افسردگی، پریشانی اور مایوسی نہیں ہے؛ یہ (عزاداری) سید الشہداء حسین بن علی (علیہما السّلام) کی عزاداری سے ہے؛ یہ (عزاداری) زندہ کرنے والی، سبق آموز، حوصلہ افزا اور امید افزا ہے۔
سید حسن نصر اللہ کا (ظاہری) جسم ہمارے درمیان میں نہیں رہا، لیکن ان کی حقیقی شخصیت، ان کی روح اور ان کا انداز بیان، پہلے کی طرح ہمارے درمیان ہے اور رہے گا۔ وہ جابرانہ اور غارتگر شیطانوں کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے؛ وہ فصیح زبان اور مظلوموں کے بہادر (شجاع) مدافع تھے؛ مجاہدین اور حق کے متلاشیوں کے لیے دلیری اور جرأت کا باعث تھے۔ ان کی مقبولیت اور اثر و رسوخ لبنان، ایران اور عرب ممالک سے بھی آگے بڑھ چکا تھا؛ اور اب ان کی شہادت، اس اثر کو مزید بڑھا دے گی۔
ان کا اپنی دنیوی زندگی میں سب سے اہم زبانی اور عملی پیغام، آپ لبنان کی وفادار قوم کے لیے یہ تھا کہ امام موسیٰ صدر اور سید عباس موسوی (رضوان اللہ) جیسی اور دیگر ممتاز شخصیات کے کھو جانے سے مایوس اور پریشان نہ ہوں؛ جدوجہد کی راہ میں شش و پنج کا شکار نہ ہوں؛ اپنی کوشش اور طاقت میں اضافہ کریں؛ اپنی یکجہتی کو دوگنا کریں؛ جارح دشمن کے مقابلے میں ایمان کو مضبوط اور توکل سے مزاحمت کریں اور اسے شکست دیں۔
میرے عزیزو! لبنان کی وفادار قوم! حزب اللہ اور امل کے پرجوش جوانو! میرے بچو! آج ہمارے شہید سید کی اپنی قوم، مزاحمتی محاذ اور پوری امت اسلامیہ سے یہی خواہش ہے۔
چونکہ ناپاک اور ناجائز دشمن، حزب اللہ یا حماس یا جہاد اسلامی جیسی مضبوط تحریکوں اور دیگر مجاہد فی سبیل اللہ تنظیموں کو شدید نقصان نہیں پہنچا سکا، اس لیے وہ قتل و غارتگری، تباہی، بمباری اور عام شہریوں کا قتل عام اور غیر مسلح افراد کو نشانہ بنائے جانے کو اپنی فتح کی علامت سمجھتا ہے۔ نتیجہ کیا ہے؟ اس طرزِ عمل کا نتیجہ، غصے کا ارتکاز اور لوگوں کی حوصلہ افزائی میں اضافہ اور مردوں، جرنیلوں اور لیڈروں اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ، اور خونخوار بھیڑیے کے دائرے کا تنگ ہونا، اور آخر میں، اس کے ذلت آمیز وجود کا صفحہ ہستی سے مٹنا ہے، ان شاء اللہ۔
عزیزو! غم زدہ دلوں کو اللہ کی یاد سے اور اس سے مدد مانگنے سے سکون ملتا ہے؛ کھنڈرات بحال ہو جائیں گے، اور آپ کے صبر اور استقامت سے عزت اور وقار آئے گا۔
سید عزیز کو تیس سال تک ایک مشکل جدوجہد کا سامنا رہا؛ حزب اللہ کو قدم با قدم بلند کیا: ”گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ “ قرآن (48:29)
سید کی تدبیر سے، حزب اللہ نے صبرکے ساتھ، منطقی اور فطری طور پر قدم با قدم ترقی کی اور صیہونی حکومت کو پسپا کرنے کے لیے مختلف مقامات پر اپنے دشمنوں کو اپنے وجود کے آثار دکھائے: ”ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ “ قرآن (14:25)
حزب اللہ حقیقی معنوں میں شجرۂ طیبہ ہے۔ حزب اللہ اور اس کے بہادر اور شہید رہنما، لبنان کے تاریخی فضائل اور شناخت کا نچوڑ ہیں۔
ہم ایرانی ایک عرصے سے لبنان اور اس کی خصوصیات سے واقف ہیں؛ شہید محمد بن مکی عاملی، علی بن عبد العال کرکی، شہید زین الدین عاملی، حسین بن عبدالصمد عاملی، اور ان کے بیٹے محمد بہا الدین، جو شیخ بہائی کے نام سے مشہور ہیں، اور ان کے علاوہ علم و دین سے آراستہ دیگر لوگوں نے ایران کو سربداران اور صفوی حکومتوں میں آٹھویں اور دسویں اور گیارہویں صدی ہجری میں اپنے علم کی برکتوں سے مستفید کیا ہے۔ زخمی اور خون آلود لبنان کی مدد، ہمارا اور تمام مسلمانوں کا فرض ہے۔
حزب اللہ اور سید شہید نے غزہ کے دفاع اور مسجد الاقصٰی کے لیے جہاد کر کے اور غاصب اور ظالم حکومت پر کاری ضرب لگا کر پورے خطے اور پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم حیات بخش خدمت کی راہ میں قدم بڑھایا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہم و غم، غاصب حکومت کی سلامتی کو برقرار رکھنا اور خطے کے تمام وسائل پر قبضہ کر کے اسے بڑے عالمی تنازعات میں استعمال کرنے کے لیےاس غاصب حکومت کو اپنا آلہ کار بنانے کی مہلک پالیسی ہے۔ ان کی پالیسی، (صیہونی) حکومت کو خطے سے مغربی دنیا کو توانائی کی برآمد اور مغرب سے خطے میں اشیاء اور ٹیکنالوجی کی درآمد کے لیے گیٹ وے میں تبدیل کرنا ہے، اور اس کا مطلب، یہ (پالیسی) پورے خطے میں غاصب حکومت کے وجود اور اس پر انحصار کی ضمانت ہے۔ مجاہدین کے ساتھ (صیہونی) حکومت کا سفاکانہ اور بے رحمانہ رویہ، ایسی صورت حال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ حقیقت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ (صیہونی) حکومت پر کسی بھی شخص اور کسی بھی گروہ کی ہر ضرب، پورے خطے اور پوری انسانیت کی خدمت ہے۔
یقیناً یہ صیہونی اور امریکی خواب، ایک (باطل) جھوٹا اور ناممکن خیال ہے۔ (غاصب) حکومت کلمہ خبیثہ کی مثال ہے ”جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے۔“ اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے،” اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔“ قرآن (14:26)
یہ خبیث حکومت، بے بنیاد اور جعلی اور غیر مستحکم ہے اور اس نے محض امریکی حمایتوں کی بنیاد پر خود کو بمشکل زندہ رکھا ہوا ہے؛ اور یہ بھی زیادہ دیر نہیں چلے گا؛ اللہ تعالٰی کی اجازت سے۔
اس دعوے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اب ایک سال ہو گیا ہے کہ دشمن نے غزہ اور لبنان میں اربوں ڈالر خرچ کر کے اور امریکہ اور دیگر کئی مغربی حکومتوں کی بھرپور مدد کے باوجود، چند ہزار محاصرے میں گھرے ہوئے اور باہر سے کسی قسم کی مدد سے ممنوع (اور محروم) مجاہدینِ فی سبیل اللہ کے مقابلے میں شکست کھائی ہے اور ان کا واحد حربہ، غیر مسلح گھروں اور سکولوں اور ہسپتالوں اور کمیونٹی سینٹرز پر بمباری کرنا ہے! آج صیہونی دہشت گرد گروہ خود اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ حماس اور حزب اللہ پر کبھی بھی فتح حاصل نہیں کر سکے گا۔ لبنانی اور فلسطینی مزاحمتی عوام! بہادر جنگجو اور صابر اور قدردان لوگو! یہ شہادتیں، یہ زمین پر بہائے گئے خون، آپ کی تحریک کو کمزور نہیں کرتے، بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بناتے ہیں۔ اسلامی ایران میں 1981 کی گرمیوں کے تقریباً تین مہینوں میں ہماری کئی درجن مایہ ناز اور نامور شخصیات کو قتل کر دیا گیا کہ ان میں سے ایک عظیم شخصیت سید محمد بہشتی تھے، ایک عظیم شخصیت صدر رجائی تھے اور ایک عظیم شخصیت وزیراعظم باہنر تھے، علماء میں سے (جن کو شہید کیا گیا) آیت اللہ مدنی اور آیت اللہ قدوسی اور آیت اللہ ہاشمی نژاد اور ان جیسے دوسرے تھے۔ ان میں سے ہر ایک قومی یا مقامی سطح پر انقلاب کا ستون شمار ہوتا تھا اور ان کا فقدان کوئی آسان بات نہیں تھی؛ لیکن انقلاب رکا نہیں، پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ تیزی سے آگے بڑھا۔
آج بھی خطے کی مزاحمت ان شہادتوں سے پیچھے نہیں ہٹے گی؛ مزاحمت کامیاب ہو جائے گی۔ مزاحمت نے غزہ میں دنیا کی آنکھیں خیرہ کر دیں؛ اس (مزاحمت) نے اسلام کو عزت دی۔ اسلام نے غزہ میں اپنے سینے کو تمام برائیوں اور غلاظتوں کے خلاف ڈھال بنایا ہوا ہے۔ کوئی بھی آزادی پسند انسان ایسا نہیں ہے جو اس مزاحمت پر درود نہ بھیجتا ہو اور ظالم اور خونخوار دشمن پر لعنت نہ بھیجتا ہو۔ طوفان الاقصٰی اور غزہ اور لبنان کی ایک سالہ مزاحمت نے غاصب حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں اس کی سب سے اہم فکر اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے؛ یعنی وہی فکر جو اس (غاصب) حکومت کو اپنے منحوس وجود کے ابتدائی سالوں میں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین اور لبنان کے مجاہدین کی جدوجہد صیہونی حکومت کو ستر سال پیچھے پلٹانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس خطے میں جنگ، عدم تحفظ اور پسماندگی کی اصل وجہ، صیہونی حکومت کا وجود اور ایسی حکومتوں کی موجودگی ہے جو خطے میں امن و امان کی (جھوٹی) دعویدار ہیں۔ خطے کا اصل مسئلہ، غیر ملکی مداخلت ہے۔ اس خطے کی حکومتیں، اس (خطے) میں امن اور سلامتی قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اس عظیم اور نجات بخش مقصد کے لیے قوموں اور حکومتوں کی کوشش اور جدوجہد ضروری ہے۔ اس راستے میں، خدا آگے بڑھنے والوں کے ہمراہ ہے؛ ”اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر بہت زیادہ قادر ہے۔ “ قرآن (22:39)
خدا کا سلام، رہبرِ شہید نصر اللہ پر، بہادر شہید ہنیہ پر، اور باعثِ فخر اور سردار شہید قاسم سلیمانی پر ہو۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣﴾
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
4 اکتوبر 2024