خالص محمدیؐ اسلام کے پیروکار فقط نعروں کی حد تک اور موسمی طور پر محروموں اور مستضعفوں کا دفاع نہیں کرتے ہیں بلکہ محروموں کا دفاع اُن کا دائمی نعرہ ہوتا ہے جو اُن کے قول و عمل کے ساتھ متّصل نعرہ ہے۔ اور اپنی انفرادی اور شخصی زندگی میں بھی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ضروری اور واجبی ضروریات کو پورا کرنے سے زیادہ کی فکر میں نہیں ہوتے ہیں۔ امام خمینی بعض خالص محمدیؐ اسلام کے پیروکاروں کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ اسلام کے پابند علماء اور علماء نماؤں میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ علمائے مبارزِ اسلام ہمیشہ استکبار و استعمار کے زہریلے تیروں کا ہدف قرار پائے ہیں اور اُن چھوڑے ہوئے تیروں کا اوّلین نشانہ اُن کے دِل قرار پاتے ہیں۔ لیکن علماء نما دُنیا پرست سرمایہ دار طبقہ کی پشت پناہی میں باطل کی ترویج یا ظالمین کی حمد و ثناء اور اُن کی تائید میں سرگرم ہوتے ہیں۔ ہم نے آج تک کوئی ایک درباری عالم یا وہابی عالِم کو نہیں دیکھا ہے کہ جو ظلم، شرک، کفر اور متجاوز سوویت یونین اور عالمی استکبار امریکہ کے مقابلے پر کھڑا ہوا ہو، اور اِسی طرح سے ہم نے ایک پاکیزہ، خدا کی اطاعت اور خلقِ خدا کی خدمت کے عاشق عالِم کو نہیں دیکھا ہے کہ جسے دُنیا کے محرومین کی مدد و نصرت کے لیے ایک لحظہ بھی سکون اور قرار میسّر آیا ہو اور تن من کی بازی لگا کر کفر اور شرک کے خلاف مقابلہ نہ کیا ہو، اور(شہید) عارف حسینی اِس طرح سے تھے اور اسلامی اقوام نے حتماً اِس واقعے کی وجہ پا لی ہے کہ کیوں ایران میں ’’مطہری جیسوں‘‘،’’ بہشتی جیسے‘‘، اور شہدائے محراب اور دوسرے محترم علماء اور عراق میں’’شہید صدر جیسوں‘‘ اور ’’حکیم جیسوں‘‘ اور لبنان میں’’راغب حرب جیسوں‘‘ اور کُرَیّم جیسوں‘‘ اور پاکستان میں ’’عارف حسینی جیسوں‘‘ اور تمام ممالک کے خالص محمدیؐ اسلام کا درد رکھنے والے علماء سازشوں کا ہدف اور دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں‘‘[24]۔
5۔معبود سے اُنس اور اُس کی عبادت
عبادت اور راز و نیاز کے لحاظ سے خالص محمدیؐ اسلامی ثقافت میں، دعا کی حقیقت فقط زبان سے نکلی ہوئی باتوں سے عبارت نہیں ہے بلکہ دعا کرنے والے کی روحی اور باطنی حالات سے عبارت ہے، کیونکہ عبادت کی حقیقت عابد کے ظاہری افعال، اقوال اور وِرد نہیں ہے بلکہ عبادت کی حقیقت معبود کی بندگی کرنا ہے کہ جس کا لازمہ غیر خدا کی بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی کرنا ہے۔ عابد کی عبادت اُس کی اطاعت اور بندگی سے ظاہر ہوتی ہے وگرنہ ظاہری عبادت بندگی و اطاعت کے بغیر ریاکاری اور نفاق کے کچھ بھی نہیں ہے جوکہ عین کفر اور شرک ہے اور یکتا پرستی والی توحید کے بالکل خلاف ہے۔ لہٰذا ظاہری عبادت اور ظاہری دعائیں ایک قسم سے تعلق رکھتی ہیں اور حقیقی دعائیں اور عبادت بھی ایک قسم سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ اِس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عابد کی عبادت، خالص خدا کی اطاعت، بندگی اور غیر خدا کی بندگی سے دوری کے لیے سمبل اور نمونہ ہے جو کبھی اجتماعی شکل میں تو کبھی انفرادی شکل میں انجام دی جاتی ہے لہٰذا ایک حقیقی عابد محراب عبادت میں شیاطین اور طاغوت کے ساتھ مبارزہ و مقابلہ اور اپنے نفس کے ساتھ جہاد کی صورت میں انجام دیتا ہے تاکہ خدائے اَحد کی بندگی کا افتخار اُسے حاصل ہو۔ اگر اِس نقطہ نگاہ سے عبادتِ پروردگار انجام پائے تو ایک حقیقی عابد کبھی بھی طاغوت، استعمار و استکبار کے ساتھ مبارزہ و مقابلہ کے اپنے وظیفے کو عبادت کے بہانے فراموش نہیں کرے گا۔ اِس بنا پر وہ کبھی بھی عبادت کو سیاست سے جُدا نہیں سمجھے گا اور اپنی نماز کو طاغوت کی نفی کے شعار کے ساتھ ہم آہنگ کرے گا تاکہ اللہ عزوجل کی الوہیت کا اِس طریقے سے اعتراف کرسکے اور حج میں بھی اپنے آپ کو فقط حج کے آداب و مناسک تک محدود نہیں رکھےگا بلکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی میں بت شکنی اور ہر زمانے کے نمرودوں اور فرعونوں سے اظہار برائت کرتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی کی صدا پر لبیک کہے گا[25]۔طاغوت سے مبارزہ، انقلابی ہونے اور سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کے باوجود ایک حقیقی عابد کے لیے یہ کام بالکل بھی عالمِ غیب کے ساتھ ارتباط و اتصال اور معبود حقیقی کے ساتھ اُنس و محبت میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنیں گے کیونکہ طاغوت کا انکار اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور تمام سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں حقیقی توحید کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کے سبب ہے۔ خالص اسلام محمدیؐ پر ایمان رکھنے والے طاغوت اور استکبار سے مبارزہ اور سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں اور خدمتِ خلق کے بہانے خالق کی بندگی اور عبادت سے مُنہ نہیں موڑتے ہیں، اُن کی نظر میں جو بھی مخلوقِ خدا کی خدمت ہے وہ خالق کی خوشنودی کی خاطر ہے۔ عاشقِ خدا عارف بااللہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ واجب نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل اور مستحب اعمال کے بھی پابند تھے، آپ ہر نماز کی اذان کے آغاز سے لے کر مکمل ایک گھنٹہ خالق عزوجل سے راز و نیاز کیا کرتے تھے، اِس کے علاوہ نوافل بالخصوص نوافلِ شب و نماز شب کے تقریباً ستر سال تک پابند رہے اور ہمیشہ اپنے پروردگارکے ساتھ عاشقانہ اور عارفانہ رابطہ رکھتے تھے۔ یہی خدا سے مضبوط رابطہ سبب بنا کہ آپ غیر خدا سے کسی بھی قسم کا کوئی ڈر و خوف نہیں رکھتے تھے اور تنہا تمام طاغوتوں اور عالمی استکبار و استعمار کے مقابلے پر کھڑے ہوجاتے تھے، اور تمام آنے والے طوفانوں اور چلنے والی مخالف ہواؤں کے مقابلے پر مضبوطی کے ساتھ استقامت کا مظاہرہ کرتے تھے[26]۔
6۔اخلاقیات اور روحانیت
اخلاقیات کے شعبے میں بھی فضائل اور اخلاق حسنہ کو کسب کرنا اور اخلاقی برائیوں، روحی کدُورتوں اور آلودگیوں کو دور کرنا خالص محمدیؐ اسلام کے عملی لوازم میں سے ہے۔ عملی تقویٰ، معنوی سیر و سلوک، روح کی بلندی اور عرفانِ عملی، عرفانِ نظری کے ساتھ خالص محمدیؐ اسلام کے اہداف میں شمار ہوتے ہیں۔ انسان کی اخلاقیات، اُس کے ایمان اور اعتقاد میں اضافے کا سبب بنتی ہیں لہذا طبیعی طور پر اخلاقیات کی پابندی عقائد کے لوازم میں بھی شمار ہوتی ہیں لہٰذا اخلاقی اور عملی اُصولوں کی پابندی درحقیقت اُس کے قلبی اعتقادات کا مظہر ہوتی ہیں[27]۔
جیسا کہ خدا وندِ متعال اِس بارے میں فرماتا ہے: مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔’’جو شخص بھی عزّت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ تمام عزّت پروردگار کے لئے ہے- پاکیزہ کلمات اسی کی طرف بلند ہوتے ہیں اور عمل صالح انہیں بلند کرتا ہے‘‘ (سورۃ فاطر آیۃ،10)
اِسی لیے خالص اسلام فقط نعروں اور دعوؤں میں خلاصہ و محدوود نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان کی زندگی میں عملی اور اخلاقی اُصولوں کا نفاذ اُس کے کردار اور عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایمان، عمل صالح کے بغیر نجات بخش نہیں ہے اور عمل بھی ایمان کے بغیر سعادت و نجات کا سبب نہیں بنتا ہے کیونکہ عملِ صالح اور ایمان ایک دوسرے کے ہمراہ ہیں اور اِنہیں ایک دوسرے سے جُدا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً۔’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے‘‘(سورۃ نحل،آیۃ 97)
خالص محمدیؐ اسلام کا احیاء کرنے والے امام خمینی رضوان اللہ علیہ اپنی جوانی سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک معلّم اخلاق اور قلوب کا تزکیہ کرنے والوں میں سے تھے۔ اپنے نفس کی ایسی تہذیب و تربیت کی تھی کہ عملی تقویٰ کے میدان میں اعلیٰ ترین درجوں پر فائز تھے اِس کی گواہی نہ فقط آپ کے چاہنے والوں نے دی ہے بلکہ آپ کے مخالفین بھی آپ کے اخلاق اور تقویٰ کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں[28]۔
خالص محمدیؐ اسلام دین کی معرفت کے حصول کے لیے فقط دین کے ظاہری پہلوؤں پر اکتفا نہیں کرتا ہے، دین کے باطنی پہلوؤں پر بھی توجہ دینے کی تاکید کرتا ہے۔ اِسی لیے خالص اسلام فقط ظاہری عقائد میں خلاصہ و محدود نہیں ہوتا اور عالَمِ غیب کے ساتھ ارتباط، خداوندِ متعال کی قلبی و حضوری معرفت اور عقلی اور فلسفی معرفت کے ساتھ کشف و شہود، غیبی الہام اور سیر وسلوکِ معنوی و روحانی کو بھی خالص محمدیؐ اسلام کا جز سمجھتا ہے۔ البتہ خالص محمدیؐ اسلام میں عرفان سے مراد صوفیوں کا عرفان اور طور طریقے نہیں ہے بلکہ خالص محمدیؐ اسلام کا پیروکار ایک عارف ظاہری شریعت کا بھی مکمل پابند ہوتا ہے، حق تک پہنچنے اور سیر وسلوک کے بہانے کبھی بھی ظاہری شرعی احکام اور عبادات سے منہ نہیں موڑتا۔ اور اِسی طرح ایک حقیقی عارف بندگان خدا کے ساتھ اجتماعی تعلقات و روابط کو نہیں توڑتا اور نہ ہی بندگان خدا کی وجہ سے خداوندِ کائنات سے اپنے تعلق و رابطے کو کمزور کرتا ہے۔امام خمینی رضوان اللہ نے اپنی عملی زندگی میں خالص محمدیؐ اسلام پر پابندی کے ذریعے لوگوں کو ایک عملی نمونہ فراہم کیا آپ ایک حقیقی عارف، زاہد اور عابد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معاشرہ شناس، سیاست شناس اور مجاہد انسان بھی تھے۔ امام خمینی نے آئمہ معصومین علیہم السلام کی ایسی کامل پیروی اختیار کی کہ آپ کو آئمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی کا عملی نمونہ کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ آپ کی عبادات، خدا کے ساتھ راز و نیاز، آپ کا علم و عمل اور حکیمانہ کلام، خدا کے اولیاء کرام یعنی آئمہ علیہم السلام سے توسُّل اور خدا پر مکمل توکُّل اور وقت کی ظالم و جابر استعماری طاقتوں کی سامنے استقامت کا مظاہرہ کرنا اور ڈٹ جانا یہ وہ تمام خصوصیات تھی کہ جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ آپ آئمہ کی زندگی و سیرت کا عملی نمونہ تھے۔
حوالے جات:
23ـ ولایت فقیه ص 28 و 29،
24ـ صحیفه نور ج 21 ص 90
25ـ ایضاًص 7و 8
26ـ آداب الصلوة ، سرالصلوة اور حج کے موقع پر پیغامات کی طرف رجوع کریں۔
27ـ در این زمینه نیز به کتابهایی که در زمینه سیره عملی حضرت امام نگارش یافته است باید مراجعه کرد؛ از جمله این کتابها، کتاب پابهپای آفتاب است که در چهار مجلد توسط امیررضا ستوده نوشته شده و در بهار سال 1373 در تهران به چاپ رسیده است.
28ـ قرآن در اسلام، علامه طباطبائی، ص 10 و 11، تهران، دارالکتب الاسلامیة