بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفیٰ محمّد و علیٰ آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین. اللهمّ انّی احمدک و استعینک و استغفرک و اتوکّل علیک. و السّلام علیٰ ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین و هداة المؤمنین. قال الله تعالیٰ: وَ المُؤمِنونَ وَ المُؤمِناتُ بَعضُهُم اَولِیاءُ بَعضٍ یَامُرونَ بِالمَعروفِ وَ یَنهَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ یُؤتونَ الزَّکوةَ وَ یُطیعونَ اللهَ وَ رَسولَهُ اُولئِکَ سَیَرحَمُهُمُ اللهُ اِنَّ اللهَ عَزیزٌ حَکیمٌ.
میں تمام بھائیوں اور بہنوں سمیت اپنے آپ کو تقوائے الٰہی کی دعوت، نصیحت کرتا ہوں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے؛ کہیں ہم اپنے قول و فعل میں حدودِ الٰہی سے تجاوز نہ کریں۔
اس آیت میں کہ جس کی میں نے تلاوت کی، مؤمنین کی ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا اہم مسئلہ بیان ہوا ہے کہ قرآن کی تعبیرات میں، اس باہمی ارتباط اور یکجہتی کو ولایت کہا جاتا ہے؛ مؤمنین کی ایک دوسرے پر ولایت۔ یہ نکتہ قرآن کی کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ (خداوند) اس آیت میں، اس ولایت اور یکجہتی کے نتیجے کو خدا کی رحمت متعارف کرواتا ہے: اُولئِکَ سَیَرحَمُهُمُ اللهُ؛ یعنی اگر آپ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہیں اور ارتباط اور تعاون اور ہمدلی برقرار رکھیں، خدا کی رحمت آپ کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد (خدا) فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ عَزیزٌ حَکیمٌ؛ آیہ شریفہ کا خدا کی عزت اور خدا کی حکمت سے اختتام کرتا ہے؛ شاید اس لیے کہ یہاں پر خدا کی رحمت مناسب ہے خدا کی عزت اور خدا کی حکمت کے ساتھ؛ کیونکہ خدا کی رحمت، خدا کی جانب سے نازل ہوئے فضائل کی قسمیں، خدا کے بندوں کے شامل حال ہو جاتی ہیں؛ تمام نعمتیں، تمام الطاف، زندگی کے تمام حوادث، خدا کی رحمت ہیں؛ لیکن اس آیہ شریفہ میں، یہ رحمت، عزت اور حکمت کے ساتھ مناسب ہے۔ خدا کی عزت یعنی تمام عالم وجود پر پروردگار کی قدرت کا احاطہ؛ خدا کی حکمت یعنی خلقت کے تمام قوانین کا استحکام اور مضبوطی۔ اس آیت میں شاید ہماری توجہ اس معنی پر مبذول کروانے کی خواہش کی گئی ہے کہ اگر مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور اتفاق سے رہیں، خدا کی عزت اور خدا کی حکمت ان کے ساتھ ہوگی؛ (مسلمان) خدا کی لامحدود قدرت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، خدا کی سنتوں اور خدا کے قوانین کے تقاضوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔اچھا، یہ ولایت یعنی کیا؟ یعنی مسلمانوں کاآپس میں ارتباط اور یکجہتی؛ یہ مسلمانوں کے لیے قرآن کی سیاست ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن کی سیاست یہ ہے کہ مسلمان قومیں، مسلمان گروہ، ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہوں، یہ اس چیز کا باعث ہے کہ خدا کی عزت آپ کے ساتھ ہے، یعنی تمام رکاوٹوں پر مسلط ہوں گے، تمام دشمنوں پر فاتح ہوں گے؛ خدا کی حکمت آپ کی ڈھال ہے؛ یعنی خلقت کے تمام قوانین، آپ کی ترقی کی راہ میں کار آمد ثابت ہوں گے؛ یہ، قرآن کی منطق اور قرآن کی سیاست ہے۔ اس سیاست کے مقابلے میں دشمنانِ اسلام کی سیاست ہے؛ یعنی عالمی استکبار اور ظالم، ان کی سیاست ”تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو“ ہے؛ ان کی سرگرمیوں کی بنیاد تفرقہ ڈالنا ہے۔ انہوں (دشمنوں) نے تفرقہ بازی کی سیاست کو اسلامی ممالک میں، آج تک مختلف حربوں سے اجراء کیا ہے، آج بھی پیچھے نہیں ہٹے اور اسلامی اقوام کے دلوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا باعث ہیں؛ لیکن آج قومیں بیدار ہو گئی ہیں۔ آج ایک ایسا دن ہے کہ امت اسلامیہ، اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ان حربوں پر قابو پا سکتی ہے۔ میں عرض کرتا ہوں: ایرانی قوم کا دشمن وہی ہے جو فلسطینی قوم کا دشمن ہے، جو لبنانی قوم کا دشمن ہے، جو عراقی قوم کا دشمن ہے، جو مصری قوم کا دشمن ہے، جو شامی قوم کا دشمن ہے، جو یمنی قوم کا دشمن ہے؛ دشمن ایک ہے، دشمن کی روش، مختلف ممالک میں مختلف ہے۔ ایک جگہ نفسیاتی جنگ کے ذریعے، ایک جگہ اقتصادی دباؤ سے، ایک جگہ دو ٹن کے بموں سے، ایک جگہ ہتھیار سے، ایک جگہ مسکراہٹ (دھوکے) سے، ہمارے دشمن ایسی پالیسی اپنا رہے ہیں، لیکن حکم کی جگہ ( تھنک ٹینک) ایک ہی ہے، ایک ہی جگہ سے حکم لیتے ہیں، ایک ہی جگہ سے مسلمانوں کے اجتماع اور مسلمان قوموں پر حملے کا حکم لیتے ہیں۔ اگر یہ سیاست ایک ملک میں کامیاب ہوئی، یعنی ایک ملک پر تسلط کی وجہ بنی، جب ایک ملک سے ان (دشمنوں) کا دل مطمئن ہو جاتا ہے تو دوسرے ملک کے پیچھے جاتے ہیں ۔ قوموں کو ایسا ہونے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ جو قوم دشمن کے مفلوج کر دینے والے محاصروں کی شکار ہونا نہیں چاہتی، اسے پہلے سے ہی ہوشیار رہنا ہوگا، بیدار رہنا ہو گا؛ جب دیکھے کہ دشمن ایک قوم کو نشانہ بنائے تو خود کو اس مظلوم اور ستم دیدہ قوم کے ساتھ شریک کرے ، اس کی مدد کرے، اس کے ساتھ تعاون کرے تاکہ دشمن وہاں کامیاب نہ ہو پائے۔ اگر دشمن وہاں کامیاب ہوا تو دوسری جگہ آئے گا۔ ہم مسلمانوں نے اس حقیقت سے کئی سال غفلت کی ہے، نتائج بھی دیکھے ہیں؛ آج ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے؛ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ ہمیں افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ اور لبنان، تمام اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام کا دفاع کرنا ہو گا؛ خود مختاری اور عزت کے لیے مضبوطی سے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ پہلا نکتہ ہے کہ جسے میں عرض کرنا چاہتا تھا۔ آج میری زیادہ تر گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے کہ ان کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ میں دوسرے خطبے میں یہ باتیں، ان سے کروں گا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے دفاعی احکام نے ہماری ذمہ داری کو واضح کیا ہے؛ اسلام کے دفاعی احکام، ہمارا اساسی قانون بھی، بین الاقوامی قوانین بھی؛ وہی قوانین کہ جن کا ہمارے قوانین وضع کرنے میں کوئی اثر نہیں تھا، لیکن یہاں تک کہ ان قوانین میں بھی، یہ نکتہ جو عرض کروں گا حقائق کا جز ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر قوم کو اپنی زمین پر، اپنے گھر پر ، اپنے ملک پر، اور اپنے مفادات پر تجاوز کرنے والے کے مقابلے میں دفاع کرنے کا حق ہے؛ اس بات کا مطلب یہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی قوم اس دشمن کے مقابلے میں، جس نے ان (فلسطینیوں) کی زمین پر تصرف کیا ہے، ان کے گھر کو ویران کیا ہے، ان کے کھیتوں کو تباہ کیا ہے، ان کی زندگی کو برباد کیا ہے، ڈٹ کر کھڑی ہو؛ فلسطینی قوم کو یہ حق حاصل ہے۔ یہ ایک مضبوط منطق ہے کہ آج بین الاقوامی قوانین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ فلسطین کس کا ہے؟ فلسطینی قوم کون لوگ ہیں؟ یہ قابضین کہاں سے آئے ہیں؟ فلسطینی قوم کو حق حاصل ہے کہ ان کے مقابلے میں کھڑی ہو؛ کسی بھی ادارے، کسی بھی مرکز، کسی بھی بین الاقوامی ادارے کو حق حاصل نہیں ہے کہ فلسطینی قوم پر اعتراض کریں کہ کیوں غاصب صیہونی کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہوئی ہے؟ کسی کے پاس (اس اعتراض کا) حق نہیں ہے۔ وہ لوگ بھی جو فلسطینی قوم کی مدد کر رہے ہیں، وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں؛ کسی کو کسی بھی بین الاقوامی قانون کے مطابق حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لبنانی قوم، حزب اللہ پر اعتراض کرے کہ کیوں آپ نے غزہ اور فلسطینی عوام کے قیام کی حمایت کی ہے؟ ان کی ذمہ داری ہے؛ انہیں حمایت کرنی چاہیے تھی۔ یہ اسلامی حکم بھی ہے، عقلی قانون بھی ہے، عالمی اور بین الاقوامی منطق بھی ہے۔ فلسطینی اپنی زمین کا دفاع کر رہے ہیں؛ ان کا دفاع جائز ہے، ان کی مدد بھی جائز ہے۔ اس بنا پر، تمام حملے اور طوفان الاقصٰی جو کہ گزشتہ سال انہیں ایام میں انجام پایا، بین الاقوامی قانون کی منطق کے مطابق تھا اور فلسطینی حق بجانب تھے۔ لبنانیوں کا فلسطینی عوام کا بھرپور دفاع بھی اسی حکم میں شامل ہے؛ وہ بھی قانونی، عاقلانہ، منطقی اور جائز ہے اور کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ ان پر اعتراض کرے کہ کیوں آپ اس معرکے میں داخل ہوئے؟ ہماری مسلح افواج کی ان دنوں کی عظیم کاروائی بھی مکمل قانونی اور جائز تھی۔ ہماری مسلح افواج نے جو اقدام کیا، وہ کمترین سزا تھی غاصب صیہونی حکومت کے لیے؛ اس حکومت کے حیران کن جرائم کے مقابلے میں، (غاصب صیہونی) خونخوار حکومت، بھیڑیا صفت حکومت، خطے میں امریکی پاگل (وحشی) کتا۔ اس سلسلے میں جمہوری اسلامی (ایران) کا جو بھی وظیفہ ہوگا، وہ پوری طاقت اور استقامت اور قاطعیت سے انجام دے گا۔ ہم اس وظیفے کی انجام دہی میں نہ شش و پنج کا شکار ہوں گے نہ ہی جلد بازی سے کام لیں گے، کوتاہی نیہں کریں گے (اور) جلد بازی بھی نہیں کریں گے، جو (فیصلہ) نظامی اور سیاسی منصوبہ بندی کرنے والوں کی نظر میں منطقی ہے اور معقول ہے اور درست ہے، مقررہ وقت پر انجام پائے گا؛ جیسا کہ انجام پایا اور آئندہ بھی ضرورت پڑی تو دوبارہ بھی انجام دیا جائے گا۔
دوسرے خطبے میں لبنان کے موضوع پر گفتگو ہوگی اور اس کے مخاطب عرب بھائی اور خطے کے ممالک ہوں گے؛ لہٰذا خطبہ عربی میں دیا جائے گا۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
وَالْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴿٣﴾
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
۴ اکتوبر ۲۰۲۴