بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دنیائے اسلام کی عظیم اقوام!
علمائے کرام!
مسلم حکومتیں اور آزاد منش انسان!
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ. (سورۂ الأنفال، آیت 72)
انسانی ضمیر اور پاک فطرتوں کو، ایک مرتبہ پھر بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کی ہولناک اور شرمناک جارحیت نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آج مظلوم غزہ، نہ صرف بلاجواز کی جانے والی بمباری کی آگ میں جل رہا ہے، بلکہ غذائی، دواؤں اور انسانی محاصرے میں بھی گھرا ہوا ہے۔ وسیع پیمانے پر بھوک، بچوں، عورتوں، بزرگوں (عمر رسیدہ) اور مریضوں کی مظلومانہ شہادتیں اور مظلوم بے گناہ لوگوں کی اموات کے دلخراش مناظر، ہر آزاد انسان کے دل کو دکھ پہنچا رہے ہیں۔
یہ اقدامات نہ صرف نسل کشی اور جنگی جرائم کی واضح مثال ہیں، بلکہ کسی بھی انسانی، قانونی، شرعی یا بین الاقوامی معیار سے ان کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ کے مظلوم عوام کی پکار، آج علمائے اسلام، مسلم ممالک کے رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے لیے ایک عظیم امتحان ہے۔
جب فلسطینی مظلوم قوم، خاص طور پر غزہ کے مظلوم عوام کی پکار دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے تو ہر بیدار ضمیر انسان صیہونی حکومت کے بے گناہ لوگوں پر کئے جانے والے واضح مظالم کے خلاف غم و غصّے میں مبتلا ہے۔ یہاں پر علمائے دین اور اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری بہت سنگین ہو چکی ہے؛ کیونکہ نہ صرف انسانی اصولوں کی بنیاد پر، بلکہ قرآن و سنت کے حکم سے بھی ان پر مظلوم کی حمایت اور ظلم کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
ان تاریخی اور حساس حالات میں، علمائے دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حمایتی فتاویٰ جاری کریں، مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد کی دعوت دیں اور صیہونی حکومت کی کھل کر مذمت کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات بڑھانے کے خلاف واضح اور مؤثر اقدامات اٹھائیں۔
فلسطینی قوم کی مادی اور معنوی حمایت کا لوگوں کو شوق دلائیں اور اسی طرح آئمہ جمعہ و جماعت اور دینی مدارس و یونیورسٹیوں اور ذرائع ابلاغ کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنا ہم سب کی دینی، سیاسی اور سماجی ذمہ داری ہے اور فطری طور پر اس ذمہ داری ( کی ادائیگی میں) غفلت یا تساہل کا نتیجہ دنیا و آخرت میں سخت عذاب کا سبب بنے گا۔
اسلامی حکومتوں پر نیز، نہ صرف دینی یکجہتی کی بنیاد پر، بلکہ انسانی و حقوقِ بشر کے اصولوں کے مطابق اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف مضبوط مؤقف اِختیار کرنا فرض ہے۔ بدقسمتی سے، متعدد مواقع پر ہم نے بعض حکومتوں کی خاموشی یا صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کا مشاہدہ کیا ہے۔ اسلامی حکومتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سفارتی تعلقات صیہونی حکومت سے منقطع یا معطل کر دیں اور بین الاقوامی اداروں کے توسط سے اس حکومت کی مذمت کریں اور اسے سزا دلوائیں؛ نیز، غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی و طبی امداد فراہم کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی جائز مزاحمت کی حمایت کو اپنی پالیسی کا حصّہ بنائیں۔
علمائے دین اور اسلامی حکومتوں کی (فلسطین اور غزہ کے متعلق) غفلت نہ صرف ظلم کے جاری رہنے کا سبب بنتی ہے، بلکہ عالمی سطح پر اسلام کی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے۔ وحدت اسلامی اور امت کی بیداری صرف عملی اقدامات اور مظلوموں کی حقیقی حمایت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مسلمانوں کی جوان نسل بھی علمائے دین اور سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی کو گہرائی سے دیکھ رہی ہے اور خاموشی کو منافقت یا دینی ارادے کی کمزوری سمجھتی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ دنیائے اسلام کی تمام سچی قوتیں بشمول علماء، دانشور اور حکمران اپنے اندرونی اختلافات کو چھوڑ کر غزہ کے لوگوں کے حق میں اپنی اسلامی اور انسانی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ امت مسلمہ کی بیداری، عدالت پسندی اور ہم آہنگ عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
غزہ کا المیہ، نہ صرف ایک انسانی بحران ہے، بلکہ دنیائے اسلام کے لیے ایک تاریخی امتحان ہے۔ علمائے اسلام کو اس بیداری کی تحریک میں پیش پیش رہنا چاہیے اور اسلامی حکومتیں بھی یہ ثابت کریں کہ وہ اسلامی کہلانے کی لائق ہیں۔ اگر آج (مظلومین کے) بہائے جانے والے پاکیزہ خون کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی تو کل دوسرے علاقوں کی باری آئے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ مظلوموں کی نصرت اور ظالموں کے خاتمے کا الٰہی وعدہ سچا ہے: إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ. (سورۂ الأنعام، آیت 135)
والسّلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
حسین نوری ہمدانی