بسم الله الرحمن الرحيم
والحمدالله رب العالمين و الصلاة والسلام على خير خلق الله محمد المصطفى و اله الطيبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدين.
حج، مؤمنوں کی آرزو، مشتاقین (حج کا شوق رکھنے والوں) کی عید اور سعادت مند لوگوں کا معنوی رزق ہے اور اگر یہ (حج) باطنی رموز کی معرفت کے ساتھ انجام پائے تو امت اسلامیہ، بلکہ پوری انسانیت کی زیادہ تر بیماریوں کا مداوا ہے۔
حج کا سفر، تجارت، سیاحت یا دوسرے مختلف مقاصد کے لیے کیے جانے والے سفر جیسا نہیں ہے، جس کے دوران ممکنہ طور پر کوئی عبادت یا کوئی نیک کام بھی انجام دے دیا جاتا ہو؛ حج کا سفر، معمولی زندگی سے مطلوبہ زندگی کی طرف ہجرت کی مشق ہے۔ مطلوبہ زندگی وہ توحیدی زندگی ہے جس میں حق کے محور کے گرد دائمی طواف، مشکل چوٹیوں کے درمیان مسلسل سعی، شر پسند شیطان کو پتھر مارنا، ذکر و دعا سے مملو وقوف، زمین گیر مسکین اور سفر میں مجبور ہو جانے والے راہگیر کو کھانا کھلانا، رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے فرق کو یکساں سمجھنا، ہر حال میں خدمت کے لیے تیار رہنا، خدا کی پناہ لینا اور حق کے دفاع کا پرچم بلند کرنا اس زندگی کے بنیادی اور دائمی اجزاء ہیں۔
حج کے مناسک نے اس زندگی کی علامتی مثالوں کو اپنے اندر سمو رکھا ہے اور (مناسکِ حج) حاجی کو اس (مطلوبہ زندگی) سے روشناس کرواتے اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں؛ اس دعوت کو قبول کرنا چاہیے، دل کو اور ظاہری اور باطنی آنکھوں کو کھولنا چاہیے۔ سیکھنا چاہیے اور ان دروس کو استعمال کرنے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس راہ میں ایک قدم بڑھا سکتا ہے اور علماء، دانشور، سیاسی عہدیداران اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد دوسروں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
دنیائے اسلام کو آج پہلے سے کہیں زیادہ ان دروس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ آج یہ دوسرا موسم حج ہے جو غزہ اور مغربی ایشیاء کے المناک واقعات کے دوران انجام پا رہا ہے۔ فلسطین پر قابض مجرم صیہونی (دہشتگرد) ٹولے نے ناقابلِ یقین درندگی اور بے مثال بے رحمی اور شرانگيزی کے ساتھ غزہ کے المیے کو ایک ناقابلِ یقین حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت فلسطینی بچے بموں، گولیوں اور میزائيلوں کے علاوہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ اپنے عزیزوں، جوانوں اور ماں باپ کو کھونے والے مصیبت زدہ گھرانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے؛ اس انسانی المیے کے سامنے کسے کھڑا ہونا چاہیے؟ یقیناً یہ ذمہ داری سب سے پہلے اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے اور پھر اقوام پر (یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ) وہ اپنی حکومتوں سے اس ذمہ داری پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کریں۔ مسلم حکومتیں شاید مختلف مسائل میں آپس میں سیاسی اختلاف رکھتی ہوں؛ (لیکن) یہ (اختلافات) انہیں غزہ کے المناک مسئلے پر متفقہ مؤقف اپنانے اور آج کی دنیا کے سب سے مظلوم انسانوں کے دفاع میں تعاون کے سلسلے میں روکاوٹ نہ بنیں۔ مسلم حکومتیں صیہونی حکومت کی امداد رسانی کی تمام راہوں کو بند کر دیں! اور اس مجرم کو غزہ میں اپنی سفاکانہ کارروائیاں جاردیگری رکھنے سے باز رکھیں! امریکہ، صیہونی حکومت کے جرائم میں یقینی طور پر شریک ہے؛ اس خطے میں اور دیگر اسلامی خطوں میں امریکہ سے وابستہ لوگ، مظلومین کے دفاع کے سلسلے میں قرآن مجید کی آواز سنیں اور امریکی اسکتباری حکومت کو اس ظالمانہ رفتار کو روکنے پر مجبور کریں۔ حج میں برائت کا اعلان، اس راہ میں ایک قدم ہے۔
غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت نے مسئلۂ فلسطین کو دنیائے اسلام سمیت دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مظلوم قوم کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
مسئلۂ فلسطین کا نام اور اس کی یاد کو فراموشی کے سپرد کروانے کے لیے اسکتباری اور صیہونی حکومت کے حامیوں کی کوششوں کے باوجود، اس حکومت کے حکام کی پست فطرت اور ان کی احمقانہ پالیسی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آج فلسطین کا نام پہلے سے زیادہ درخشاں ہے اور صیہونیوں اور ان کے حامیوں سے نفرت، پہلے سے زیادہ ہے اور یہ دنیائے اسلام کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
اہل سخن اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوام کو آگاہ کریں، انہیں احساس دلائیں اور فلسطین سے متعلق مطالبات کو مزید پھیلائيں۔
آپ خوش قسمت حجاج بھی حج کے مناسک کے دوران دعا اور خدا سے مدد طلب کرنے کے موقع سے غفلت نہ برتیں اور خداوند متعال سے ظالم صیہونیوں اور ان کے حامیوں پر فتح کی دعا کریں۔
خدا کی صلوات و سلام ہو پیغمبرِ اسلامؐ اور ان کے پاکیزہ خاندان پر! اور سلام و درود ہو حضرت مہدی بقیت اللّٰہ عجل اللہ ظہورہ پر!
والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته
سید علی خامنہ ای
3 ذی الحجہ 1446 ہجری قمری
30 مئی 2025