گذشتہ حدیث کے متن پرتوجہ
’’خَيْرٌ لِلنِّسَاءِ أَنْ لايَرِيْنَ الرِّجَالَ وَ لَايَرَاهُنَّ الرِّجَالُ ‘‘آپ سلام اللہ علیہاسے منقول یہ حدیث جوہم نے پچھلے حصّے میں بیان کی تھی بہت سے دانشوروں،سیرت نگاروں اورروشن فکروں کے سمجھ میں نہیں آئی اوراُن کی طرف سے اِس حدیث پر بہت سے اعتراضات اورسوالات اُ ٹھائے گئے۔ہم مختصر اِس حدیث کی تشریح وتفسیر یہاں پر بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔پہلانکتہ جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ آپ سلام اللہ علیہانے یہاں پر’’خیر‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے،جس سے ترجیح، برتری،فضیلت اورتَقَدُّم کے معنی نمایاں ہوتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں آپ سلام اللہ علیہا ایک مثالی، آئیڈیل اورترجیحی صورتحال کوبیان فرمارہی ہیں، ایک ایسا حکم کہ جس کی رعایت میں فضیلت اوربرتری پوشیدہ ہے؛ یا یوں کہا جاسکتاہے کہ روایت میں بیان کیا گیا حکم، ایک اخلاقی ترجیحی تجویز اور نصیحت ہے، نہ یہ کہ ایک قانونی ذمہ داری کے طورپرحکم بیان فرمایا ہو۔ یہ ہرگزبھی قانونی ممنوعیت کے معنی میں نہیں ہے۔ اسلام کی نظرمیں خواتین ضرورت پڑنےپر اسلامی اوراخلاقی اقدارکا خیال رکھتے ہوئے سماجی میدان میں داخل ہوسکتی ہیں اوراِس میں کسی بھی قسم کی کوئی ممنوعیت نہیں پائی جاتی۔

قانونی(شرعی)مسائل اوراخلاقی مسائل میں فرق
اسلام کے قانونی اورحقوقی مسائل، فقہی اورشرعی مسائل میں سے ہیں جوانسان کے سماجی کرداراور روابط پرنگاہ رکھتے ہیں۔ ایسے احکام جو الزامی ہو اور اگراُن کی خلاف ورزی ہو تو دوسروں کو حق حاصل ہے کہ وہ اِس پر قانون وشریعت کی جانب رجوع کرکے شکایت کریں۔ لیکن اخلاقی اوراقداری احکام فقہی نکتہ نظر سے اکثر و بیشتر مستحبات کا حکم رکھتے ہیں، جوانسان کےکردارکے حُسن وکمال کے پہلو سے خدا سے اوراُس کی مخلوق سے رابطے کی عکاسی کرتے ہیں، وہ احکام ہیں جو ذمہ داری اوروجوب کو تو معین نہیں کرتے ہیں لیکن اُن کی رعایت کرنا انسان کی روح کے تکامل اور ارتقاء کے لیے بہت زیادہ مؤثرثابت ہوتےہیں مثلاًعورت کے ضروری اور بنیادی اخراجات ادا کرنا مرد کے لیے حقوقی طورپرواجب ہے۔ ضروری اور بنیادی اخراجات ادا نہ کرنے پر عورت شکایت کا حق محفوظ رکھتی ہے لیکن ضروری اور بنیادی اخراجات سے ہٹ کر اضافی اخراجات اوراِسی طرح گھروالوں کے لیے تحفے تحائف ایک اخلاقی اور قابلِ تحسین عمل ہے۔

پس حضرتِ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے مذکورہ فرمان میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ایک عورت کے لیے خدا کی بارگاہ میں قُرب اورنزدیک ہونے کی حالت یہ ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں گھرمیں رہتے ہوئے انجام دے، بچوں کی تربیت، شوہرداری سے لے کر گھر کے دیگر امور اور گھرکا بہترین ماحول بنانے کی ذمہ داریاں انجام دے۔ کیونکہ فطری طورپر یہ کام عورت ہی بہترین اورمطلوبہ طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔حضرت فاطمۃ الزہراء کی سیرتِ طیبہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ سلام اللہ علیہا سماجی میدانوں میں بھی فعّال اور سرگرم رہی ہیں۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ سلام اللہ علیہا ہر ہفتے کے دِن شہدائے اُحُد کے مزارات پر تشریف لے جایاکرتی تھیں اورحضرت حمزہ علیہ السلام اوردیگر شہداء کے لیے مغفرت اوردرجات کی بلندی کے لیے دعا فرماتی تھیں۔) بحارالانوار: ج 43، ص 9)

ہم دیکھتے ہیں کہ وہی سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا جو فرماتی ہیں کہ “بہترین عورت وہ ہے جو نہ کسی نامحرم مرد کو دیکھے اورنا ہی کوئی نامحرم مرد اُسے دیکھے”، جب اسلامی معاشرے کو خطرات لاحق ہوتے ہوئے اور اسلامی اقدار کو خطرے میں دیکھتی ہیں تو مسجد کی طرف نکل پڑتی ہیں اورمہاجر اور انصار کے مجمع میں خلافت و امامت کے غاصبوں کو للکارتی ہیں، اوراپنی اہم ترین ذمہ داری انجام دیتی ہیں۔ ایک مدافع ولایت بن کر سامنے آتی ہیں، حق و باطل کوایک دوسرے سے جُدا کرنے کا کردارادا کرتی ہیں، اوراِس راستے میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں فرماتی ہیں۔ آپ کے فصیح وبلیغ خطبے عرب کے نامور شعراء کو حیرت و تعجب میں ڈال دیتے ہیں۔آپ سلام اللہ علیہا کی سیرت طیبہ سے اِس حقیقت کی تائید ملتی ہے کہ آپ کا بیان کردہ یہ اصول ایک مستحسن اورترجیحی امر ہے جوایک آئیڈیل حالات میں اِس عمل کی تائید وتاکیدکرتا ہے۔