فلسطین کے مجاہدین کا حالیہ حملے کے تاریخی موقع پر ولی امر مسلمین سید علی حسینی خامنہ ای کے بہترین تجزیاتی خطاب کے اہم نقاط  

7 اکتوبر کو ہونے والا معرکہ  صیہونی ریاست کی ایک ناقابل تلافی اطلاعاتی اور فوجی ناکامی ہے۔ انہوں نے ایک ناقابل تلافی شکست اٹھائی ہے۔ سب کا کہنا ہے کہ انہوں نے شکست کھائی ہے، مگر میری تاکید اس پر ہے کہ یہ شکست ناقابل تلافی شکست ہے۔

میرا کہنا ہے کہ اس تباہ کن حملے نے صیہونی حاکمیت کے ڈھانچے کی حقیقی بنیادوں کو ایسا ویران کیا ہے کہ اسے دوبارہ کھڑا کرنا آسانی سے ممکن نہیں ہے۔

بہت مشکل ہے کہ قابض صیہونی حکومت اس تمام شور شرابے کے ساتھ جو وہ کرتے ہیں، اس تمام حمایت کے ساتھ جو آج انکو مغرب سے مل رہی ہے، اس نقصان کی تلافی اور ترمیم کر سکیں۔

میرا کہنا ہے کہ بروز ہفتہ 7 اکتوبر سے صیہونی حکومت وہ پہلے والی صیہونی حکومت نہیں رہی ہے اور انکو وہ نقصان ہوا ہے کہ اتنی آسانی سے اسکی تلافی ممکن ہی نہیں ہے۔

میری نظر میں یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ یہ (طوفان الاقصٰی) ان صیہونیوں کی اپنی وجہ سے ان کے سروں پر نازل ہوا ہے۔ جس وقت ظلم و بربریت حد سے بڑھ جاتی ہے، جس وقت درندگی اپنی آخری انتہاء تک پہنچ جاتی ہے، تو لازم ہے کہ (وہ ظالم) طوفان کا انتظار کریں۔

تم لوگوں (صیہونیوں) نے فلسطینی عوام کے ساتھ کیا کیا؟ فلسطینیوں کی بہادرانہ اور فداکاری پر مبنی کاروائیاں دشمن کے ظلم کا جواب تھا۔ وہ ظلم جو کئی سالوں تک ہوتا رہا اور آخری مہینوں میں جو پوری شدت سے جاری تھا، ان سارے جرائم کی ذمہ دار قابض صیہونی حکومت خود ہے۔

ان آخری دنوں میں، دنیا کی تاریخ میں، اس آخری ماضی قریب کے دور میں یعنی آخری سو سال یا اس سے زیادہ کو جب ہم دیکھتے ہیں تو، کوئی بھی مسلمان قوم ویسی دشمنی کا سامنا نہیں کر رہی جیسی دشمنی کا سامنا فلسطینی قوم کو آج ہے۔ اس قدر شرانگیزی، اس قدر خباثت، اس قدر بےرحمی، اس قدر خونخواری کے ساتھ دشمنی کسی بھی دوسری مسلمان قوم یا مسلمان ملک کو درپیش نہیں ہے۔

قومیں بہت سے موقعوں پر مظلوم واقع ہوئی ہیں، لیکن (کسی قوم کا) دشمن اس قدر بےحیا، اس قدر خبیث، اس قدر بےرحم نہیں تھا۔ کوئی بھی مسلمان قوم، فلسطینیوں کی طرح دباؤ، محاصرے، کا شکار نہیں تھی اور نہ ہی ہے۔ نہ آج ایسی کوئی مثال موجود ہے اور نہ ہی اس خطے میں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس کا کوئی سراغ ملتا ہے۔

کسی بھی دوسری حکومت نے، ان مغربی حکومتوں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ کی نسبت اس جعلی، ظالم اور خونحوار حکومت (اسرائیل) کی اتنی حمایت نہیں کی ہے؛  پہلے انگریزوں نے اور پھر امیریکیوں نے، اور ان کے ساتھ ان گنت حکومتوں نے۔ اس زمانے میں جب دنیا میں مشرقی بلاک موجود تھا، سابقہ سویت یونین اور دوسرے، سب نے اس ظالم حکومت کی مدد کی ہے۔

اس ظالم حکومت کا سلوک اس طرح تھا کہ انہوں نے مرد و خواتین کسی پہ رحم نہیں کھایا، فلسطینی بچوں اور بزرگوں پر رحم نہیں کیا۔ مسجدِ اقصٰی کے احترام کا خیال تک نہ رکھا۔ اپنے شہریوں کو کتوں کی مانند فلسطینیوں پر چھوڑ دیا۔ نمازیوں کو پاؤں سے روندا۔ اس سارے ظلم و بربریت کے خلاف ایک (مظلوم) قوم کو کیا کرنا چاہیے؟ ایک غیرت مند اور قدیم قوم، فلسطینی قوم کوئی آج کل میں بننے والی قوم نہیں ہے۔ ہزاروں سالہ (تاریخ) رکھنے والی قوم ہے۔ ان سب مظالم کے مقابلے میں انکو کیا ردعمل دینا چاہیے تھا؟ یہ بات واضح ہے کہ (انہوں نے) طوفان برپا کرنا ہے، ایک (مناسب) موقع میسر آتے ہی (ایک جوابی) طوفان برپا کرنا ہے۔

اے صیہونی ظالمو! قصور تمہارا اپنا ہی ہے۔ اس طوفان (الاقصٰی کے اٹھنے) کی وجہ تم خود ہی ہو۔ تم نے خود ہی اپنے لیے یہ مصیبت کھڑی کی ہے۔ ایک قوم کے پاس ایسی دشمنی کے مقابلے میں غیرت مندانہ اور بہادرانہ ردِ عمل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔

یہ خبیث اور ظالم دشمن ایک طمانچہ کھانے کے باوجود مظلوم بننے کی اداکاری کر رہا ہے۔ دوسرے(ظالم) اس میں اسکی مدد کر رہے ہیں۔ عالمی استکباری میڈیا انکی مدد کر رہا ہے، تاکہ (دنیا کو) یہ دکھا سکیں کہ (صیہونی) مظلوم ہیں۔ البتہ یہ ایک بالکل غلط اندازہ لگایا گیا ہے۔۔۔ یہ مظلوم بننے کی اداکاری سو فیصد حقیقت کے خلاف اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

فلسطینی مجاہدین چونکہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ خود کو غزہ کے محاصرے سے باہر نکالیں اور آزاد کریں، (اسکے بعد) صیہونی فوجی اور غیرفوجی مراکز تک خود کو پہنچائیں؛ (کیا یہ صیہونی، اس سے) مظلوم بن گئے ہیں؟ یہ قابض حکومت جو کچھ بھی ہو، مظلوم نہیں ہے، (بلکہ) اپنی حدوں کو پھلانگنے والی، جاہل اور بدزبان (حکومت) ہے۔ یہ (صیہونی) یہ سب کچھ ہیں مگر مظلوم نہیں ہیں، یہ ظالم ہیں۔ کوئی بھی اس بھیانک درندے کے چہرے کو مظلوم بنا کر پیش نہیں کر سکتا۔

اس مظلومیت کے ڈرامے کو یہ قابض حکومت بہانہ بنانا چاہتی ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے ظلم کو مزید بڑھائے اور جاری رکھ سکے؛ غزہ پر حملہ، عوام کے گھروں پر حملہ، غیر فوجی لوگوں پر حملہ، غزہ کے لوگوں کا اجتماعی قتلِ عام اور خونریزی کر سکے۔ (دشمن کی) اس مظلومیت کی اداکاری کامقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے اپنی بربریت کو کئی گنا بڑھا دے۔ اس مظلومیت کی اداکاری کے ذریعے وہ اپنے ظلم کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

قابض حکومت کے سربراہ اور فیصلہ کرنے والے لوگ اور ان کی حمایت کرنے والے یہ جان لیں کہ یہی کام (غزہ پر حملہ)، انکے سر پر مزید ایک بہت بڑی بلا کو نازل کرنے والا ہے۔ (تم یہ) جان لو کہ ان مظالم کا ردِّعمل تمہارے چہرے پر ایک سخت تر اور شدید تر طمانچے کی صورت میں آئے گا۔

فلسطین کے بہادر جوانوں کا عزم اور فلسطین کے شہیدوں کا عزم، ان مظالم کی وجہ سے مزید پختہ ہو گیا ہے۔ آج (صورتحال) یہ ہے۔ وہ دن گئے کہ جب کوئی آتا تھا، بلکہ آ کر اپنی باتوں سے، ظالم کے ساتھ نشست وبرخاست کرکے فلسطین میں اپنے لیے کوئی جگہ بنا سکتا تھا۔ وہ زمانہ گزر چکا ہے۔ آج فلسطینی بیدار ہو چکے ہیں، انکے جوان (آج) بیدار ہیں۔ فلسطین کے منصوبہ ساز (اذہان ) پوری مہارت سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔

دشمن کا یہ تجزیہ بھی غلط ہے، جو وہ سوچتے ہیں کہ (صیہونی) مظلومیت کا ڈرامہ کریں تاکہ اپنے ظالمانہ حملوں کو جاری رکھ سکیں۔ البتہ عالمِ اسلام کو ان مظالم کے خلاف خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنا ردِّعمل ظاہر کرنا چاہیے۔

اس (صیہونی) حکومت کے حامی اور خود اس قابض حکومت کے کچھ لوگ پچھلے چند دنوں سے، یہ فضول باتیں کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جن میں سے یہ بھی ہے کہ ایران کو اس تحریک کا پشت پناہ ظاہر کریں، وہ یہ غلطی کر رہےہیں۔ البتہ ہم فلسطین کا دفاع کرتے ہیں، ہم ان کے جہاد کا دفاع کرتے ہیں۔ ہم فلسطین کے مدبّر، بیدار منصوبہ سازوں اور جوانوں کے ہاتھوں اور بازؤوں کو چومتے ہیں، ہم ان پر فخر کرتے ہیں۔ یہ تو ہے مگر وہ جو یہ کہتے ہیں کہ فلسطینی (مجاہدین) کی کاروائیاں غیر فلسطینیوں کی وجہ سے ہیں؛ (انہوں نے) فلسطینی قوم کو نہیں پہچانا۔ ان کو یہیں پر غلط فہمی ہوئی ہے، انہوں نے یہاں غلط تجزیہ کیا ہے۔

پورے عالمِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کریں اور اللہ کے اذن سے انکی حمایت کریں۔ لیکن یہ کاروائیاں خود فلسطینیوں کی اپنی ہیں۔ انکے باہوش منصوبہ سازوں، بہادر جوانوں اور شہیدوں نے یہ حماسہ ایجاد کیا ہے اور یہ حماسہ انشاء اللہ فلسطین کی نجات کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔

ولی امر مسلمین سید علی حسینی خامنہ ای

10 اکتوبر 2023