تمام کام خدا کی خوشنودی کے لیے ہونے چاہیئے:
خدا نے ہمیں کس لیے خلق کیاہے؟ ہمیں اِس لیے خلق کیا ہے کہ ہم خلافتِ الٰہی کے مقام پر فائز ہو سکیں۔ وہ مقام کہ جس کو قُربِ خدا کہا جاتا ہے، جس کانام ’’جوارِ خدا‘ ‘ہے یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا فلاں صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے شاید اِس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا ہے کہ اِس کے معنی کیا ہیں؟ جوار کے معنی ہمسایہ کے ہیں۔ خداوندِ متعال نے انسان کو خلق فرمایا ہے تاکہ وہ خدا کا ہمسایہ بن جائے۔ اگر اِس دین کی پیروی کی جائے تو اِس مقام تک پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر دین کی راہ پر نہیں چلا جائے اور جو بھی زحمت اور مشقت اُٹھائی جائے خدا اُس کی زحمت ضایع تو نہیں کرتا اور اُسے اِسی دنیا میں ہی اُس کا اجر و صلہ دے دیتا ہے لیکن آخرت جو کہ ابدی زندگی کی جگہ ہے اُسے وہاں پر کوئی صلہ نہیں مل سکے گا۔ پس ہر وہ مشقت و زحمت جو دین کے راستے سے ہٹ کر، دین کو نظرانداز کر کے کی جائے تو انسان خدا کی دی ہوئی استعداد اور صلاحیت کے مطابق بہت سارے کام تو انجام دے سکتا ہے یعنی اُسے اِسی دنیا میں ہی اس کی زحمت کا صلہ مل جائے گا لیکن وہ کمال جو خدا کے قُرب کے راہ میں تگ و دُو کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے اُس سے محروم رہے گا۔ حقیقی کمال تک دین کے راستے سے ہی پہنچنا ممکن ہے۔
لوگ کیوں خود ساختہ اور غیرپائیدار عرفان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیوں لوگ خود ساختہ اور زائل ہو جانے والے عرفان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اُس راستے میں سختیاں اور زحمتیں برداشت کرتے ہیں جیسا کہ اِس طرح کے بعض خود ساختہ روحانی اور عرفانی سلسلوں میں سخت ریاضتیں بھی کرنی پڑتی ہیں مثلاً بعض جادوگر، صوفی اور اِس طرح کے دوسرے افراد انجام دیتے ہیں۔
اِس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ایک واضح اور سادہ وجہ یہ ہے کہ دین اسلام میں موجود دستورالعمل اورحقیقی عرفان میں زندگی کی آخری سانس تک واجبات اور محرمات سے واسطہ پڑتا ہے یعنی شریعت دائمی ہے یعنی ہمیشہ حرام و حلال، واجبات و محرمات کی رعایت کرنی پڑتی ہے جبکہ اِس طرح کے خودساختہ اور عارضی سلسلوں میں محدود وقت تک مثلاً 6 مہینے، ایک سال، دوسال مشکلات و زحمات اُٹھانی پڑتی ہیں اور اُس کے بعد تمام چیزوں سے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں! نہ ہی واجبات کی پابندی اور نہ ہی محرمات سے دوری اور نہ ہی دیگر دینی ذمہ داریاں سب چیزوں سے دستبردار ہو جاتے ہیں اور تمام غیر شرعی و دین کے مخالف کام بھی انجام دیتے ہیں کچھ محدود اور عارضی کمالات اور عجائبات تک رسائی بھی حاصل کر لیتے ہیں اور عارف و بابا بھی مشہور ہو جاتے ہیں۔ در حقیقت ایسے لوگ شیطانی و سوسوں اور بہکاوے میں گرفتار لوگ ہوتے ہیں۔ مختصر اور کم وقت میں کمالات تک پہنچنے کے وسوسے، شیطانی وسوسے اور ارادے سبب بنتے ہیں کہ انسان اِس طرح کی خودساختہ چیزوں کی طرف مائل ہو کر اصل حقیقت اور کمال سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائے۔