ایسے شیطانی، گمراہ اور خودساختہ فرقوں سے کیسے مقابلہ کیا جائے۔۔۔؟
شیطان کے پاس دین سے، ہدفِ زندگی سے اور حقیقی قُربِ خدا سے دور کرنے کے بہت زیادہ حیلے اور راستے پائے جاتے ہیں۔ وہ فرقے اور گمراہ سلسلےجو دین اور شریعت سے اپنا تعلق ختم کر دیتے ہیں انہیں پہچاننا آسان ہے اور ایک عاقل و متدیَّن شخص آسانی سے پہچان لیتا ہے کہ یہ راستہ غلط راستہ ہے۔ لیکن خطرناک ترین اور نقصان دہ ترین وہ فرقے اور خودساختہ عرفان ہیں جو دین کے نام پر، اسلامی رسم و رواج کے نام پر، آئمہ علیہم السلام سے عشق و محبت کے جھوٹے نعروں کے ذریعے ایسی چیزوں کو پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو حقیقی تعلیمات اور معرفت سے کوسوں دور لے جاتے ہیں اور ابدی گمراہی و ضلالت میں دھکیل دیتے ہیں اُن کی پہچان دشوار ہے کیونکہ وہ دینی شعائر اور مقدسات کے ذریعے عوام الناس کو فریب دیتے ہیں اِسی لئے حق کے متلاشی اور حقیقت کی طرف رجوع کرنے والے ایسے راہزنوں سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔

اِن مشکلات و مسائل کا بہت سے طریقوں سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔پہلی چیز یہ کہ لوگوں کو عشق و محبت اور نرمی کے ذریعے، اُن کی محافل میں شرکت کر کے، انہیں اپنی طرف متوجہ کر کے اور محکم دلائل اور شواہد کے ذریعے اُن سے گفتگو کی جائے کہ یہ فرقے اور سلسلے غلط ہیں البتہ یہ حقائق کو بتانے کی روش جتنی غیر مستقیم ہوگی مفید ثابت ہوگی۔ درست اسلامی عقائد اور تعلیمات سے آگاہی ایسے لوگوں کی راہ روکنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے، درس و تدریس کے ذریعے، مفید اور آسان فہم کتابوں کے ذریعے، گفتگو، بحث و مباحثے کے ذریعے، مفید موضوعاتی محافل و مجالس کے ذریعے ایسے گمراہ و خود ساختہ فرقوں سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور عام افراد بالخصوص جوانوں کو فریب کھانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

حقیقی اسلامی عرفان و روحانیت کی خصوصیات:
ہم یہاں پر حقیقی عرفان، اسلامی عرفان کی مختصر اور چیدہ چیدہ خصوصیات بیان کریں گے کہ جن سے آشنائی حاصل کرکے ہم خود ساختہ اور گمراہ فرقوں کی تشخیص دے سکتے ہیں۔
1۔ خدا کا قرب انتہائی ہدف: عرفانِ اسلامی میں آخری اور انتہائی ہدف خدا کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عرفان اسلامی کا ہدف بہت سارے جعلی اور خود ساختہ سلسلوں کی مانند خوشی، نشاط اور زندگی سے دل لگانا نہیں ہوتا ہے بلکہ خدا کے قُرب و خوشنودی کا حصول ہوتا ہے کہ جس کے نتیجے میں اطمینان، نشاط اور دیگر جزئی نتائج خودبخود حاصل ہو جاتے ہیں۔

2۔ عقل کی مخالفت نہ کرنا: حقیقی اسلامی عرفان میں عقل گریزی پائی جاتی ہے لیکن عقل ستیزی یعنی عقل کے ساتھ مبارزہ نہیں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک عارف شہُودِقلبی کے ذریعے معرفت و ہدف تک پہنچتا ہے کیونکہ عقل و برہان کے ذریعے شہُود تک نہیں پہنچا سکتاہے۔ تمام حقایق کو عقل کے ذریعے کشف نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ شہُودِقلبی کے ذریعے حقایق عَالم کو کشف کیا جا سکتا ہے۔ پس عرفان حقیقی میں عقل کی مخالفت نہیں کی جاتی بلکہ عقل پرقلبی معرفت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ خود مطالب عرفانی و شہودی کو بیان کرنے کے لیے عقل و برہان کی ضرورت پڑتی ہے بغیر عقل و برہان کے بلند و بالا مطالب بیان ہی نہیں کئے جا سکتے ہیں اور اِسی طرح شیطانی الہامات اور وسوسوں کو عقل کے ذریعے ہی پہچانا جا سکتا ہے۔

3۔ شریعت کے مطابق ہونا: حقیقی عرفان کبھی بھی کسی ایسے راستے سے جو شریعتِ محمدیؐ کے مخالف ہو حاصل نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ شریعت کی مخالفت یعنی خداوندِمتعال کی ناراضگی، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے ہدف کو یعنی خدا کی خوشنودی کو خدا کی ناراضگی کے ذریعے حاصل کرے۔ قُل اِن کُنتم تُحِبُّون اللہَ فاتَّبعُونِی یُحبِبکُمُ اللہ۔ آپ کہ دیجئے اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تاکہ خداوندِمتعال تم سے محبت کرے۔ (سورہ آلِ عمران،آیۃ 31)

4۔ انسانی فطرت سے ہم آہنگی: عرفان اسلامی کی ایک اور اہم خصوصیت انسانی فطرت سے کاملاً ہم آہنگ ہونا ہے یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی عرفان فطرت کی آواز ہے۔ فطرت انسانی کمالات کے حصول سے آہم آہنگ اور سازگار خلق کی گئی ہے اور اسلامی حقیقی عرفان بھی اِنہی اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ پس ہر وہ فرقہ اور آواز جو انسان کو اِس کی فطرت سے دور کر دے عرفان نہیں بلکہ فریب ہے۔

5۔ انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر توجہ: انسان اور حیوان میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ انسان کو کئی پہلوؤں کا حامل خلق کیا گیا ہے۔ انسان کو اُس کے انفرادی اور شخصی پہلو میں ہی محدود نہیں کرنا چاہیئے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ انسان اجتماعی پہلو کا بھی حامل ہے۔ عرفان حقیقی وہ عرفان ہے جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتاہے۔ اسلامی عرفان کے اہداف میں سے ایک ہدف انسان کو ’’انسانِ کامل‘‘ بنانا ہے۔ انسان کامل کے مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے تمام انسانی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے مثلاً انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور دیگر پہلوؤں کو کمال کی طرف حرکت دینا ضروری ہے۔ پس وہ عرفان جو فقط اپنے انفرادی خول میں بند ہے جو اپنے نفس کے زندان سے رہا نہیں ہو پا رہا ہے وہ اِس قابل نہیں ہو سکتا ہے کہ انسانِ کامل کے مقام پر فائز ہو پائے۔

ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عرفان حقیقی میں دنیا کی تعریف دنیا کی نفی کے ذریعے نہیں کی جاتی بلکہ دنیا کو آخرت کی کھیتی کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے یہی دنیا ہے کہ جہاں اولیاءاللہ کمالات عرفانی حاصل کرتے ہیں اور دنیا کو قرب خدا تک پہنچنے کی جگہ کے طور پر جانا جاتاہے۔ حقیقی اسلامی عرفان میں کسب حلال کے لیے کوشش کرنے والے کو حبیب اللہ سمجھا جاتا ہے، پس عرفان اسلامی میں دنیا و آخرت میں جدائی نہیں پائی جاتی ہے آئمہ علیہم السلام کی زندگی میں دنیا اور آخرت کا باہمی رابطہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔