ایران کا اسلامی انقلاب ایک ایسا نورانی اور مبارک تحریک تھا جوتاریکی اورظلمت کے اندھیروں سے بھری دنیامیں واقع ہوا اورآج بھی ظلمت وتاریکی کی موجودفضا کواپنے نور سے پُر کرنے کی الہی ذمہ داری پر مسلسل عمل پیراہے۔ اورایک ایسی آسمانی بجلی بن کر عصرِ حاضرکے طاغوتوں ،فرعونوں اورنمرودوں کے قلعوں اورمِحلوں پر گرا کہ جس کی ہیبت اورعظمت نےاِن ظلم وستم کے قلعوں کولرزادیا۔ انقلابِ اسلامی ایک ایسی نور کی کرن بن کر اُبھراجوتمام انبیاء اورالٰہی اوصیاء کی دیرینہ آرزو تھی۔ اوراگر یہ کہا جائے توکتنا ہی اچھاہے کہ یہ انقلاب ظہورِاصغر ہے اورعالَمِ انسانیت کے مسیحا امام زمانؑہ کےظہورِکُبریٰ کے لیےزمینہ سازاورمقدمہ ہے۔

اِس انقلاب کے ناخداا وررہنمافرزندِ زہرا ءؑروح اللہ موسوی خمینیؒ کے فرمان کے مطابق’’ ہماراانقلاب، اُس بڑے عالَمی انقلاب کا نقطۂ آ غازہے، جو حضرت حجت (امام زمانؑ) کے پرچم تلے (قائم ہوگا) اور یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اوردنیا کے تمام لوگوں پر احسان کر کے اُن کے ظہورکوعصرِ حاضرمیں قراردے۔ ہمارے ذمہ داران یہ بات جان لیں کہ ہماراانقلاب، ایران تک محدودنہیں ہے،اسلامی جمہوری حکومت کوچاہیئے کہ اپنی تمام تر کوشش اورقوت کو جتنا بہتر ہوسکے عوام کومنظم کرنے میں لگا دے، لیکن یہ اِن معنوں میں نہیں ہے کہ یہ اُنہیں انقلاب کے عظیم ہدف، جو کہ عالمی حکومت تشکیل دیناہے، سے منصرف کردے۔[1]

عصرِ حاضر میں اسلام کے کردارکوزندہ کرنا:
امامِ اُمّت روح اللہ خمینیؒ کی رہبری میں چلنے والی انقلاب کی اِس عاشورائی تحریک کی سب سے نمایاں خصوصیات اورثمرات میں جو تمام منصف مزاج تجزیہ کاروں کی متفقہ نگاہ ہے وہ یہ ہے کہ انقلاب ِ اسلامی کا سب سے بڑا کردار، اسلام کے کردارکو دُنیامیں زندہ کرناتھا بالخصوص اسلامی دُنیا میں اوراسلامی حکومت کواسلام کی بنیادپر تشکیل دینا کہ جس نے اسلامی اقدارکی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کی ضرورتوں اورمشکلات کاعملی طورپرجواب دیا اورعملی طور پر مغرب پرستوں یا مغرب سے مرغوب لوگوں کے نظریات کو باطل اورغلط ثابت کردیا، جوعصرِ حاضرمیں اسلامی حکومت کی تشکیل کوبے فائدہ اورسعیِ لاحاصل سمجھتے تھے۔اُن کی نظرمیں اسلام اپنے زمانے یعنی چودہ سوسال پہلے کی بہترین شرائط کے مطابق فقط ایک اچھی حکومتی طریقہ اورروش رکھتاتھا لیکن آج حکومت چلانے کی توانائی وقوت نہیں رکھتاہے اورعصرِحاضر کی ضروریات اورپیش آنے والی سماجی،معاشی،سیاسی اورعسکری تبدیلیوں کے مقابلے کی توانائی اور صلاحیت نہیں رکھتاہے۔ لہذابہتریہ ہے کہ اسلام، سیاسی ،معاشی،سماجی اورعسکری مسائل میں دخالت دینے سے اجتناب کرے اورفقط اعتقادی اورانفرادی مسائل تک محدودرہے۔

یہ افکار گذشتہ صدی کے اوائل میں حتیٰ مسلمانوں کے اذہان میں بھی نفوذکرچکے تھے،عملی طور پراسلام کوناقابل نفاذ سمجھا جانے لگاتھا لیکن اِس بابرکت اورعظیم انقلاب اورتحریک کی بدولت یہ افکار وتصورات باطل ثابت ہوگئے۔
انقلاب کی کامیابی نے تما م حق وحقیقت کے طالبوں اورذہنی اُلجھنوں میں پھنسے ہوئے افراد کی گتھیوں کوسلجھادیا اورثابت کردیاکہ اسلام چودہ سوسال پہلے تک محدودنہیں اورنا ہی کسی مخصوص زمانے سے خاص ہے بلکہ اسلام، رہتی دُنیاتک قابلِ نفاذ بھی ہے اور انسانوں کی ضروریات بھی پوری کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اسلامِ محّمدیؐ عالمی حکومت تشکیل دینے اورتمام انسانیت کی رہنمائی کی قابلیت رکھتاہے ۔

امامِ اُمت روح اللہ خمینی کی اِس حُسینیؑ تحریک نے اسلامی عادلانہ حکومت کو تشکیل دے کرجو عصرِحاضر سے ہم آہنگ ہو اورعصرِ حاضر کے مسائل کامقابلہ کرسکتی ہو، مغرب کے اسلام کے بارے میں احمقانہ دعوؤں کومسترد کردیا اورباطل ثابت کردیا اور حقیقی محمدی ؐاسلام پیش کرکے نااُمیدی اور یأس جو اسلامی معاشروں میں پھیل چکی تھی کو برطرف کردیااوراُسے اُمید اورجدوجہدمیں بدل دیا ۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اسلامِ محمدی ؐ کو امریکی اسلام سے جُداکرکے اوراسلامِ محمدیؐ کے چہرے پر پڑے جمود،تحریف کی گردوغبار کوصاف کرکے اسے خالص اورنجات بخش نظام کے طورپر پوری دُنیاکے سامنے پیش کیا۔اور اُسی طرح پیش فرمایاجیسے رسولِ خداؐ اورائمہ معصومین علیہم السلام نے اسلام کوایک نظام اورنجات دہندہ دین کے طورپر پیش کیاتھا۔

معصوم کی امامت کاراستہ اسلام کی محافظت اور اہلِ بیت ؐ کے راستے کونمایاں کرنے والاراستہ ہے اوروہی خالص اسلام ہے جو امام مہدیِ موعودؑ پیش فرمائیں گے اور اُس خالص اسلام کے پرچم کواپنے کندھوں میں اُٹھائیں گے اورعالمی حکومت کو اِسی خالص اسلام کی بنیادپر قائم کریں گے۔ یقیناً اُس خالص اسلام کا راستہ دِکھانا اورزندہ کرنا اُس عظیم الشان عَالَمی مہدوی انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں مؤثر ثابت ہوگا۔ وہ عالَمی مہدوی انقلاب کہ جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیاہے: وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ’’اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں‘‘۔[2]

[۱] ۔(صحیفہ نور، ج 21، ص 107- 108، چاپ اول)
[2]۔(سورۃ القصص،آیۃ 5)