1۔ دین کی شناخت اور اعتقادات
امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی دین شناسی اور معرفتِ دین کے حوالے سے آپ کی عملی روش اور انداز جو کہ خود خالص محمدیؐ اسلام کے اِس پہلو کو بیان کرتا ہے اور تائید بھی ہوتی ہے۔ امام خمینی ایک عظیم فقیہ بھی تھے اور فلاسفر اور ایک بے مثال عارف بھی تھے۔ آپ ظاہری شرعی احکام کی پابندی کے ساتھ ساتھ دین کے روحانی اور باطنی پہلوؤں کو بھی متعارف کرانے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے۔ آپ کے روحانی اور فلسفی آثار سے ہماری اِس بات کی تائید ہوتی ہے۔ آپ کی طرف سے قرآن کریم کی عرفانی تفسیر کا سلسلہ، سطحی اور ظاہری نگاہ رکھنے والوں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں اور مخالفتوں کی وجہ سے جاری نہیں رہ سکا، اِس سے بھی ہماری اِس بات کی تائید ہوتی ہے۔

البتہ امام خمینی گھٹن اور سختیوں کے زمانے میں بھی اِنہیں ظاہری اور سطحی نگاہ رکھنے والوں کے ہاتھوں مشکلات اور اذیتیں برداشت کر چکے تھے، جیسا کہ آپ خود اِس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی مبارزات اور جدوجہد کے ابتدائی دور میں اگر آپ چاہتے تھے کہ کہیں ’’شاہ خائن ‘‘ ہے تو فوراً جواب سننے کو ملتا تھا کہ شاہ شیعہ ہے! مقدّس نما قدامت پسندوں کا ایک گروہ تمام چیزوں کو حرام سمجھتا تھا اور کسی کے اندر بھی یہ طاقت نہیں تھی کہ اُن کے سامنے پرچم اونچا کرے۔ تمہارے اِس بوڑھے باپ نے جتنا اِس قدامت پسند گروہ سے خون دل پیا ہے ہرگز بھی کسی دوسرے (گروہ) کی سختیوں اور دباؤ سے نہیں پیا ہے، یہ حوزہ میں رائج مسائل میں سے ایک مسئلہ تھا کہ جو بھی جتنا کج (انحرافی) راستے پر چلتا وہ دیندار تر کہلاتا تھا۔ غیر ملکی زبان سیکھنا، کفر اور فلسفہ اور عرفان گناہ اور شرک شمار کیا جاتا تھا۔ مدرسہ فیضیہ میں میرے کمسن فرزند مرحوم مصطفیٰ نے ایک کوزے سے پانی پیا، کوزے کو دھویا گیا، کیونکہ میں فلسفہ پڑھاتا تھا۔ بغیر کسی شک و شبے کے کہہ سکتاہوں کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہتا تو علماء اور مدارس کی حالت قرون وسطیٰ کے کلیساؤں جیسی حالت ہوجاتی، خداوند نے مسلمانوں اور علماء پر احسان فرمایا اورحوزہ علمیہ (دینی مدارس) کی حقیقی بنیاد و عزت کی حفاظت فرمائی‘‘[9]۔ البتہ امام خمینی اِس بات کی جانب اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ تفکر اب بھی حوزوں(دینی مدارس) میں پایا جاتا ہے[10]۔

انقلاب کے بعد بھی حوزہ علمیہ (دینی مدارس) میں ایسے تفّکرات کی مثالوں میں سے چند ایک یہ ہیں کہ جس دوران امام خمینی سورہ حمد کی تفسیر بیان فرما رہے تھے تو تفسیر کے دروس روکنے کے لیے ایسے خطوط لکھے گئے جو اِن دروس کے تسلسل میں رکاوٹ کا سبب بنے اور امام خمینی سورہ حمد کی تفسیر کے پانچ درس ہی منعقد کر سکے جس میں فقط ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ اور ’’الحمداللہ‘‘ کی تفسیر ہی بیان کی جا سکی اور باقی سورہ حمد کی آیات تفسیر ہونے سے رہ گئیں۔ اِس تفکر کی ایک اور مثال جب 1988میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے سوویت یونین کے صدر گوربا چوف کے نام اپنا پیغام ارسال فرمایا جس میں امام خمینی نے گوربا چوف کو اسلامی تعلیمات کے مطالعے و تحقیق کی دعوت دی اور معروف فلاسفر صدر المتألھین شیرازی اور ابن عربی کے آثار کے مطالعے کی دعوت دی[11]۔ ایک ایسا شخص جو خود کو حماۃ القدس کا پبلشر سمجھتا تھا، امام خمینی کی گوربا چوف کو اسلام کی طرف دعوت کے بعد وہ شخص اس کام کو اسلام سے غیر مربوط کام اور صدر الدین شیرازی اور محی الدین ابنِ عربی کی تکفیر کرتا ہے اور اِن شخصیات کو اسلام سے خارج سمجھتاہے[12]۔ خالص محمدیؐ اسلام سے دوری اِس بات کا سبب بنتی ہے کہ ایک بظاہر دیندار شخص اپنی ظاہری اور سطحی نگاہ کی وجہ سے اسلام کی دقیق معرفت رکھنے والی شخصیات کی تکفیر کرنے لگتا ہے، تاریخ میں سطحی اور ظاہری نگاہ رکھنے والوں کی مثال خوارج اور اِن جیسی افکار رکھنے والی شخصیات اور گروہ ہیں جو گہری نگاہ نہ رکھنے کے سبب مشکلات ایجاد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ خالص محمدیؐ اسلام کے پیروکار اعتقادی پہلو کے لحاظ سے سطحی اور ظاہری اعتقادات نہیں رکھتے ہیں بلکہ اعتقادی اصولوں کی معرفت اور شناخت میں خالص توحیدی، نظری منازل و مراتب طے کرتے ہوئے خالص توحید کو اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں اور اِس توحیدِ عملی کو فقط اپنی انفرادی شخصیت میں نافذ نہیں کرتے ہیں بلکہ توحیدِ کامل کو انفرادی اور معاشرتی مختلف پہلوؤں میں نافذ کرتے ہیں اور انسانیت کی سعادت کے لیے معنوی و روحانی زندگی کو زندہ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، ایسی زندگی کہ جسے قرآن میں ’’حیاتِ طیبہ ‘‘ کہا گیا ہے [13]۔

2۔فقہ شناسی اور عملی احکام
فقہی لحاظ سے بھی خالص محمدیؐ اسلام میں فقط ظاہری احکام پر کفایت نہیں کی جاتی بلکہ ظاہری شریعت کے احکام کی پابندی اور اُن پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ شرعی احکام کےفلسفے اور احکام کے اسرار و رموز پر بھی سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے۔ اور کبھی بھی اہداف، پوشیدہ اِسرار، اور باطن یعنی اصلِ حقائق کو ابتدائی مقدمات اور ظاہری دین پر قربان نہیں کئے جاتے ہیں۔ البتہ یہ چیز بھی روشن اور واضح ہے کہ دین کی حقیقت، اسرار اور باطن کے بہانے ظواہر اور ظاہری احکام بھی فراموش نہیں کئے جاتے ہیں، درحقیقت خالص محمدی اسلام میں حق و حقیقت، باطنی اسرار اور حقائق تک رسائی کے لیے ظاہری احکام کی پابندی کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ عبادات کے اِسرار و رموز جس میں سے نماز، روزہ اور حج وغیرہ کے اسرار و رموز کے بارے میں گفتگو اِسی وجہ سے ہے اور آپ نے فقہی کتابوں کی تألیفات کے ساتھ بلکہ اِن کتابوں سے پہلے عبادات کے باطنی پہلوؤں اور اسرار و رموز سے آگاہی و معرفت کے لیے عرفانی و روحانی کتابیں تألیف فرمائیں مثلاً کتاب ’’اسرار الصلوۃ‘‘ اور ’’آداب الصلوۃ‘‘ یا وہ پیغامات جو حج کی مناسبت اور حج کے اسرار کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت کے لیے بیان فرمائے ہیں۔ یا وہ تقریریں جو آپ نے ماہِ مبارکِ رمضان کے حوالے سے اسرار و رُموز پر توجہ کی ضرورت پر فرمائی ہیں، اِس مطلب کی تائید کرتی ہیں[14]۔

دوسری طرف اسلام کی جامعیت اور کامل ہونے کی وجہ سے، خالص محمدیؐ اسلام کی فقہ بھی کامل ہے اسی وجہ سے اِس فقہ میں فقط انسان کی انفرادیت پر توجہ نہیں دی گئی ہے اور اِسی طرح سے فقط عبادی پہلوؤں پر کفایت نہیں کی گئی ہے بلکہ خالص محمدیؐ اسلام کی جامعیت اور کامل ہونے کی وجہ سے انسان کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے اِسی لیے تمام انسانوں کی ضروریات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے خالص محمدیؐ اسلام سے اخذ کی گئی فقہ میں مختلف حالات میں، اور مختلف زمانوں میں، اور مختلف قوموں کے لیے جوابدہ ہے اور اُن کے مسائل کا حل بیان کیا گیا ہے۔ اِس لحاظ سے خالص اسلام کی فقہ، اُصول اور گرانقدر اصل سنتی منابع کی حفاظت کے ساتھ ساتھ علمائے سَلف اور فقہائے گرامی قدرکے قیمتی آثار اور تألیفات سے استفادہ کرتے ہوئے جدید وسیلوں اور طریقوں سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ فقہ، عصرِ حاضر کی ضروریات، تقاضے اور پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بھی جوابدہ ہے۔

حضرتِ امام خمینی رضوان اللہ علیہ، خالص محمدیؐ اسلام میں موجود فقہ کو سنتی فقہ بھی سمجھتے ہیں اور عصر حاضر کی ضروریات اور مسائل کا جواب دینے والی فعّال فقہ بھی سمجھتے ہیں۔ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ حوزہ علمیہ قم کی شوریٰ کے سربراہی اجلاس میں جو کہ ظاہراً آپ کا آخری پیغام بھی تھا، فرماتے ہیں: ’’اِن شاء اللہ حوزہ علمیہ کے امور میں شریک تمام لوگوں کی مدد سے کامیابی حاصل کریں اور تمام اسلامی دنیا کے سوالات کے لیے جوابدہ رہیں۔ یہ مسئلہ فراموش نہیں ہونا چاہیئے کہ کسی بھی وجہ سے فقہ اور اُصول کے مضبوط اور محکم میدان میں رائج ارکان سے سر پیچی و مخالفت نہیں ہونی چاہیئے۔ البتہ عین اِسی حالت میں کہ اجتھاد جواہری (سنتی فقہ) کی محکم اور پائیداری کے ساتھ ترویج ہوتی ہے جدید طریقوں کی خوبیوں سے اور اسلامی مدارس کے موردِ ضرورت علوم سے بھی استفادہ ہونا چاہیئے‘‘[15]۔

9ـ صحیفہ نور،ص 91
10ـ ایضاً ص 92
11ـ ایضاً ص 68
13۔سورہ نحل آیت،97
14ـ صحیفہ نور، ج 20، ص 82، 86 و 109.
15ـ ایضاً، ج 21، ص 130،