آپ اُن ستاروں میں سے ایک ہیں جو عمل کو ایمان،اخلاق کو عرفان، برہان کو قرآن، علم کو حکمت اور اپنی شہادت سے سماج کی ہدایت، اور تاریکیوں کی ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے سماج کے لیے مشعل راہ تھے جو ایک چراغ کی طرح جلتے رہے اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے نور کی کرنوں سے منور کرتے رہے۔ امام خمینی]1[

پیدائش و ابتدائی تعلیم :
شہید مرتضی مطہری 3 فروری 1920 عیسوی با مطابق 12 جمادی الاول 1338 ہجری قمری کو فریمان نامی گاؤں ( جو مشہد مقدس سے 75 کلو میٹرپر واقع تھا) میں پیدا ہوئے۔آپ نے ایک علمی و دینی خانوادے میں آنکھیں کھولیں اِسی لیےآپ ہوش سنبھالتے ہی حصول ِ علومِ اہل ِبیت(ع) میں مصروف ہوگئے۔۱۲ سال کی عمر میں حوزہ علمیہ مشہد چلے گئے اور وہاں اسلامی علوم کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔]2[

شخصی معلومات
نام :مرتضی مطہری
القابات : آیت‌الله، استاد، معلم شہید، متفکر شہید
والد کا نام: شیخ محمدحسینی سیستانی
تاریخ پیدائش:3 فروری 1920
جائے پیدائش: فریمان( مشہد مقدس سے 75 کلو میٹرپر واقع گاؤں)
تاریخ شہادت: 1 مئی 1979
جائے شہادت: تہران

حوزہ علمیہ قم اور اساتذہ :
1937 میں رضا شاہ پہلوی کی علماء دشمنی اورقریبی دوستوں کی مخالفت کے باوجود مزید تعلیم کے حصول کےلیے عازم ِ حوزہ علمیہ ٔ قم ہوئے۔ان دنوں حوزہ علمیہ قم کے بانی ، آیت الله العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی فوت ہوئے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی مسئولیت و ذمہ داری آیت الله سید محمد حجّت ، آیت الله سید صدرالدین صدرا ور آیت الله سید محمد تقی خوانساری نے سنبھالی ہوئی تھی۔

تعلیم کےان 15 سالہ دورانیہ میں آپ نے آیت الله العظمی بروجردی سے فقہ و اصول ،امام خمینی ؒ سے فلسفۂ ملا صدرا ،عرفان ،اخلاق اور اصول اور علامہ محمد حسین طباطبائی سے فلسفہ ،الٰہیات اور مختلف علوم کی تعلیم حاصل کی. ۔شہید، آیت الله العظمی بروجردی کے قم آنے سے پہلے آپ علمی رہنمائی کے لیے کبھی کبھی بروجرد چلے جاتے. دیگر اساتذہ میں آیت الله سید محمد حجّت کوہ کمری سے آپ نے اصول ،آیت اللہ سید محمد محقق داماد سے فقہ کے دروس حاصل کئے۔]3[

علمی و تدریسی زندگی :
1952 میں ہی آپ بطور استاد معروف ہو گئے اور آپ کو حوزہ علمیہ کے مستقبل کی امید شمار کیا جانے لگا۔آپ تہران چلے گئے اور مدرسہ میں تدریس ،تالیفات اور دروس کا آغاز کیا۔ 1955 میں یونیورسٹی کےطالبعلموں کے ساتھ شہید نے تفسیر کا پہلا درس شروع کیا اور اُ سی سال میں ہی تہران یونیورسٹی میں الٰہیات اور معارف اسلامی کے شعبہ کا آغاز ہوا۔1958 اور 1959 میں ڈاکٹرز کی اسلامی انجمن تشکیل پائی شہید اس کے اصلی خطباء میں سے تھے اور آپ نے علمی اور اہم موضوعات پر ابحاث کا سلسلہ شروع کیا۔]4[

سیاسی اور اجتماعی سرگرمیاں:
تحصیل علم کے دوران ہی آپ اجتماعی اور سیاسی امور میں شریک ہوئے اور فدائیان اسلام سے رابطے میں آئے۔ 6 جون 1963 ء کی اسلامی تحریک میں جب امام خمینی گرفتا ہوئے تو شاہی کارندوں نے شہید مطہری کو بھی گرفتار کر لیا اور 40 دن تک جیل میں رکھا۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ دوبارہ سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔ مسجد ہدایت میں آپ کی تقریریں بطور غیر مستقیم امام خمینی کی تحریک کو روشناس کراتی ہیں۔ متحدہ اسلامی کونسل نامی تنظیم ایک فقہی اور سیاسی شوریٰ تشکیل دیتی ہے۔ شہید مطہری ہمیشہ اس شوری ٰکی نظریاتی سرحدوں کے محافظ رہے اور یہ سفارش کرتے رہے کہ اس کی سمت درست اور منطقی ہونی چاہئے اور منحرف تحریکوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ انسان اور سرنوشت نامی کتاب شایع ہونے سے پہلے اسکے مضامین پمفلٹ کی شکل میں منتشر اور اس تحریک کے کارکنوں میں تقسیم ہوتے اور اِس تنظیم کے ممبران کو اس کی تدریس ہوتی تھی۔

شہید مطہری1976 ء میں نجف اشرف جاکر امام خمینی ؒسے حوزہ علمیہ قم اور اسلامی تحریک کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اسی سال چند دوستوں سے ملکر’’جامعہ روحانیت مبارز“
کی بنیاد رکھتے ہیں۔ 1976 ء سے 1979 ء تک انقلاب اسلامی کو درپیش مسائل اور مشکلات میں گرفتار رہتے ہیں ۔ ایک طرف سے امام خمینی کے ساتھ رابطہ اور دوسری طرف سے انقلابی تحریک پر نظارت رکھتے ہیں۔ انقلاب سے چند ماہ قبل جب امام خمینی پیرس میں تشریف فرما تھے تو آپ وہاں جاکر امام سے ملاقات کرتے ہیں ۔ امام خمینیؒ شہید مطہری کے ساتھ ایک خاص لگاؤ رکھتے تھے یہاں تک کہ جب شہید بات کرنے لگتے تو امام خمینی نہایت ہی دقت سے سنتے تھے۔ اسی سفر میں امام خمینی، شوریٰ انقلاب کی تشکیل کی ذمہ داری آپ کو سونپ دیتے ہیں۔[5]

شہادت :
شہید مطہری منحرف تحریکوں کے خلاف سرگرم عمل تھے ۔ مجاہدین خلق(انقلاب مخالف گروہ کہ جو عوام میں منافقین کے نام سے جانا جاتا ہے) شہید کے نظریات کے مخالف تھے جو شہید مطہری جیسوں کو اپنے شوم اور مذموم اہداف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے۔ عَالَمی استعمار کے نمک خوار اِس منافق گروہ نے آپ کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی اور بالاخر آپ 1 مئی 1979 ء کو شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے۔

آثار وتالیفات :
شہید کی اکثر کتب کا اردوزبان میں ان ناموں سے ترجمہ کیا جا چکا ہے:
تعارف علوم اسلامی (اصول فقہ،عرفان، فقہ،فلسفہ ،منطق، کلام)، ابدی زندگی اور اخروی زندگی، امامت اور رہبری، انتظار مھدویت، وحی اور نبوت، ہدف زندگی ،نہج البلاغہ کی سیر، معنوی آزادی، قرآن کی معرفت ،فلسفہ ولایت ،فلسفہ حجاب ،فلسفہ اخلاق ،فطرت، عبادت و نماز ،انسان قرآن کی نظر میں ،سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم،سیرت آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم،ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم، تاریخ اور معاشرہ، بیسوی صدی کی اسلامی تحریکیں، الٰہی تصور کائنات، اسلام میں خواتین کے حقوق وغیرہ۔

شہید مطہری اور امام خمینی (رہ)
• شہید مطہری علمی حوالے سے علوم اور معارف کا ایک خزانہ ہیں اور دینی اخلاقی میدان میں بہترین نفس اور ایسی روح کے مالک ہیں جو دینی قواعد کی مقید اور عبادت گزار ہیںحضرت محمد (ص) اور حضرت ابراہیم (ع) کے سچے پیرو کار کے عنوان سےایک طرف حوزہ علمیہ کے طلاب کے لیے بہترین نمونۂ عمل ہیں اور دوسری طرف ہمارے معاشرہ میں ملحدانہ افکار کے مالک اور دین سے دور یونیورسٹی کے طلباء کے لیے راہ راست پر آنے کے لیے بہترین مشعل راہ ہیں ،اسی لئے تو امام خمینی (رہ) نے شہید مطہری (رہ) کے متعلق فرمایا کہ:بہنوں اور بھائیوں! جو اس مدرسہ(مدرسہ عالی شہید مطہری )میں ہیں آپ اپنے پروگراموں کو اس طرح سے ترتیب دیجئے کہ یہاں سے کئی ایک مطہری وجود میں آئیں ،یونیورسٹیوں ،فیضیہ،اور سارے علمی مراکز جو یونیورسٹیوں اور فیضیہ سے مربوط ہیں انکو چاہیئے کہ اخلاقی اور تہذیبی پروگراموں کو اپنے پروگراموں میں ترجیح دیں تاکہ مرحوم مطہری (رہ) جیسی شخصیات کو سماج کے حوالے کر سکیں۔]6[

• امام رضوان اللہ تعالیٰ نے اِس عظیم الشان انسان کی شہادت پر اپنے تعزیت نامے میں فرمایا :نہایت ہی افسوس ہے کہ ظالموں اور جنایتکاروں نے اس عظیم شخصیت کو دینی معاشرے اور دینی درسگاہوں سے چھین لیا۔ مطہری میرے لیے عزیز بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے اور حوزہ علمیہ اور ملک کے لیے ایک نہایت ہی دردمند اور مخلص نیز مفید پشت پناہ تھے۔ ]7[

میں نے اگر چہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کھویا ہے لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اسلام کے دامن میں اتنے عظیم اور بہادر جوان کل بھی موجودتھے اورآج بھی ہیں، قوت ِبیان، طہارتِ روح اور ایمان کی طاقت میں مطہری کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ لیکن بُرا چاہنے والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اُن کے اِس دنیا سے چلے جانے سے ان کی اسلامی اور فلسفی شخصیت ختم نہیں ہوگی۔(8)

1. https://bit.ly/2V08j45
2. https://bit.ly/2PyFQN6
3. https://bit.ly/2PyFQN6
4. https://bit.ly/2PyFQN6
5. https://bit.ly/2ZFgGB0
6. صحیفہ امام، ج 14، ص 168 و 169
7. صحیفہ امام، ج 12، ص 187
8. صحیفہ امام، ج 7، ص 178