امام بارگاہ کربلا آغا میر، فری میسن کے قبضہ میں
قبلاً ذکر ہو چکا ہے کہ فری میسن تقسیم ہند سے قبل ہی ہندوستان میں سرگرم عمل تھی اور برطانوی حکومت و افواج کی سرپرستی میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی، ان سرگرمیوں کا ایک حصہ ان شیعہ مراکز اور امام بارگاہوں پر قبضہ کرنا بھی تھا جو انگریز حکومت کے خلاف تحریک میں پیش پیش رہے تھے، ان میں سے ایک امام بارگاہ ہندوستان میں حضرت گنج اور بانرسی محلہ کے درمیان واقع ایک محلہ’’نرہی‘‘ میں کربلا حضرت میر کے نام سے واقع ہے، اس امام بارگاہ کو شیعہ برادری سے چھین کر بدنام تنظیم فری میسن کے حوالے کر دیا گيا، کربلا آغا میر میں فری میسن نے اپنا گڑھ بنایا اور اس مذہبی عمارت سے ایسی تحریک شروع کر دی جس نے ملک بھر میں نقصان پہونچایا کربلا آغا میر پر فری میسن کا قبضہ ہے اور خفیہ سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں والےاس گھر کو “جادو گھر” بھی کہتے ہیں. فقط یہی نہیں بلکہ انگریزوں نے پورے ملک پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال كئے سماج کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے اور کئی ایسی تحریکوں کو جنم دینے کا کام کیا جو سامراجی طاقتوں کو ہر حال میں اقتدار میں رکھ سکیں.

چونکہ اودھ میں حکمران شیعہ قوم تھی اس لیے انگریزوں نے چن چن کر ان کے مذہبی مراکز پر قبضہ کیا، اور انکو برباد کیا یا ان عمارتوں کو دوسروں کے حوالے کر کے ایک قسم سے اس قوم کو دکھ دینے کی کوئی سازش کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا. انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں کی متعدد عبادت گاہوں کو چھین کر ان میں اسپتال، چھاؤنی اور گرجا گھر تک بنا ڈالا۔ اسکی بنیادی وجہ اودھ کی اس وقت کی حکومت کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے ٹکراؤ تھا جس کے جواب میں انگریزوں نے مذہب کے آثار کی دھجیاں اڑانے کی منظم سازش کی. سامراجی طاقتوں نے اس طویل فہرست میں مسجد ٹیلا شاہ پیر محمد، مسجد آصفی، امام بارگاہ آصف الدولہ، امام بارگاہ سبطین آباد حضرت گنج کے علاوہ کئی عمارتوں کو شامل کیا اور اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔|1|

ان تمام معلومات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فری میسن کی سرگرمیاں اپنی ابتداء ہی سے ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کے تحت انجام پائیں اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ تدریجی طور پر تاریخی سفر طے کرتے کرتے ایک ایسی تنظیم میں تبدیل ہو گئی جو عالمی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ’’صیہونی عناصر‘‘ کے عنوان سے معروف ہیں جنکا جال پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، یہ عناصر پوری دنیا کی سیاست، اقتصاد، میڈیا اور حتیٰ انسانی معاشروں اور افکار کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد عصر حاضر میں جس رکاوٹ کا سامنا کر رہے ہیں وہ دین اسلام ہے پس منطقی طور پر آج اس عظیم دین کے مقابل ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔

یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ہر وہ طاقت جو عالمی صیہونی نظام کے مقابلہ پر آکر انکی سازشوں کا مقابلہ کرے گی یہ تنظیم اتنی ہی زیادہ اس کا مقابلہ کرے گی، یہی وہ وجہ ہے کہ با آسانی یہ سمجھ میں آجانا چاہئے کہ آج یہ عالمی صیہونی نظام، انقلاب اسلامی ایران، امام خمینی اور امام خمینی کی راہ پر چلنے والے افراد و معاشروں کا دشمن نمبر ایک کیوں ہے؟ واضح طور پر یہ افراد و معاشرے عالمی شیطانی و فرعونی نظام سے حالت جنگ میں ہیں،’’پیروان امام خمینی‘‘ کے نام سے معروف یہی افراد ہیں جو، سیاسی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ذریعے پوری دنیا میں اس صیہونی تفکر اور نظام کو ذلیل و رسوا کر رہے ہیں۔ اقتصادی میدان میں نا فقط یہ کہ ان افراد نے عالمی سطح پر اسلامی اقتصادی نظام کے تفکر کو پیش کیا بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کے اقتصاد اور انکے ملکوں کی لوٹی جانے والی دولت کے خلاف آواز اٹھا کر سوئی ہوئی ملتوں کو بیدار بھی کر رہے ہیں، میڈیا کی جنگ میں تعداد کے اعتبار سے کم مگر کیفیت اور سچائی کی بنیاد پر کی جانے والی موثر تبلیغات کے ذریعے دنیا بھر کے آزاد فکر اور حقیقت کے طالب لوگوں کو اسلام کی حقانیت اور صیہونیوں کی خباثت سے آگاہ کر کے ان کی تمام سازشوں کو طشت از بام کر رہے ہیں۔ اس عالمی شیطانی صیہونی نظام نے سیاسی، اقتصادی اور تبلیغاتی میدانوں میں اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے پیروکار انقلابیوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد فوجی حملوں، اقتصادی پابندیوں اور القاعدہ، طالبان و داعش جیسی تکفیری دہشت گرد طاقتوں کو وجود میں لا کر انقلاب کا مقابلہ اور راہ امام خمینی کا مقابلہ کر کے اسکو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کی لیکن آج پوری دنیا میں امام خمینی کی فکر کی سچائی، امام خمینی کے پیروکار گروہوں اور ملتوں کی سربلندی اور انقلابی افکار کے ہاتھوں اس شیطانی نظام کی بربادی پوری دنیا پر عیاں ہے۔
شام، عراق، لبنان، بحرین، یمن سمیت پوری دنیا میں استکباری نظام اور اسکے نوکروں کی اسلامی انقلاب اور اسکے پیروکاروں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد آج وقت کے فرعون و شیاطین حیران و پریشان ہیں کہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کے عظیم شاگرد، اور دین مبین اسلام کو کتابوں سے نکال کر معاشرے میں لا کر دوبارہ حیات عطا کرنے والے عظیم فقیہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اس فکر اور ان کی دکھائی ہوئی راہ کا مقابلہ آخر کس طرح سے کریں؟ ان کے حساب و کتاب کے مطابق امام خمینی کے اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد ان سب افکار، نظریات اور دنیا بھی میں جاری بیداری کو ختم ہو جانا چاہئے تھا، لیکن آ ج ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی شکل میں امام خمینی کے لایق و فایق جانشین کے ہاتھوں دنیا بھر میں جاری اسلامی مزاحمت کی سرپرستی اور استعمار کی سازشوں سے آگاہ علماء دینی کی اس انقلاب اور رہبر کی حمایت نے انکی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے حقیقی اسلام کو پیش کر کے بیداری کی وہ فکر جو امام خمینی نے دنیا بھر میں ایجاد کی تھی، آج وہ دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے روشنی کی کرن اور ظالموں کیلئے موت کا پروانہ بن کر ظاہر ہوئی ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا مومنین سے وعدہ ہے ’’ إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ‘‘ ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنادے گا سورہ محمد(ص)-آیہ(7)
اور خداوندِ متعال قرآن میں ایک اور جگہ فرماتا ہے:
وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَـهُـمْ دِيْنَهُـمُ الَّـذِى ارْتَضٰى لَـهُـمْ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًا ۚ يَعْبُدُوْنَنِىْ لَا يُشْرِكُـوْنَ بِىْ شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْن
اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے (سورہ نور-آیہ55)

1-http://urdu.newstrack.com/exclusive/karbala-agha-mir-lucknow-still-in-hands-of-freemasons-state-government-has-no-interest/