“مومنوں میں کتنے ہی ایسے مَرد ہیں کہ جو وعدہ اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اُس کو سچ کر دِکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر پوری کر (کے شہادت کے مرتبے کو حاصل کر) چکے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ (جو اپنی شہادت کا) انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (خدا سے کیے اپنے وعدےکو) ذرا بھی نہیں بدلا”۔
﴿ اَحزاب : 23﴾

” …اسلام کے عظیم مایۂ ناز کمانڈر عالم ملکوت کی جانب پرواز کر گئے … ان کا خون بشریت کے شقی ترین افراد کے ہاتھوں زمین پر بہایا گیا… ان کے چلے جانے سے بلُطف و اِذن ِخدا ان کا مشن رکنے اور تعطُّل کا شکار ہونے والا نہیں ہے۔ مگر سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں کو ان کے اور گزشتہ شب شہید ہونے والوں کے خون سے رنگین کیا ہے۔ شہید سلیمانی مزاحمتی و استقامتی محاذ کا ایک بین الاقوامی چہرہ ہیں اور اس محاذ سے وابستہ تمام افراد ان کے انتقام کے طلبگار ہیں۔ سبھی دوست اور سبھی دشمن یہ سمجھ لیں کہ مزاحمت و استقامت کی راہ مزید مستحکم عزم و حوصلے کے ساتھ جاری و ساری رہے گی اور یقینی طور پر کامیابی اس مبارک راہ میں گامزن رہنے والوں کے قدم چومے گی۔ ہمارے عزیز اور جاں نثار کی شہادت ہمارے لئے تلخ ضرور ہے مگر آخری کامیابی کے حصول تک اپنی جدّ و جہد قاتلوں اور مجرموں کے لئے اِس سے کہیں زیادہ تلخ کام ثابت ہوگی… “۔
یہ تھا رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا زمانے کی ذوالفقار، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ایک اہم پیغام۔
یہ 3جنوری 2020ء شبِ جمعہ کی سحری کا وقت تھا کہ جب بغداد ائیرپورٹ کے قریب دو گاڑیوں میں موجود “قُدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی ؒ” اور” حشدِ شعبی کے وائس چئیرمین ابو مہدی المہندسؒ” ، سپاہ اور حشد شعبی کے چند دیگر اراکین کو امریکی ہیلی کاپٹرز نے میزائل حملے کے ذریعے نشانہ بنا کر شہید کر ڈالا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی کی مختصر داستان
جنرل سلیمانی 11مارچ 1957ء کو ایرانی صوبہ کرمان کے شہر رابُر کے قنات ملک نامی علاقے میں پیداہوئے۔ جوانی میں جنرل قاسم پانی کے محکمے میں ملازمت کرتے تھے۔ ایران میں شاہی حکومت کے خاتمے اوراسلامی انقلاب کی کامیابی(1979ء) کے بعد جنرل قاسم نے 1980ءمیں پاسداران انقلاب اسلامی فورس میں شمولیت اختیار کی۔ جنرل سلیمانی کے مطابق اُس دور میں اُن کی عسکری تربیت محدود پیمانے پر ہونے کے باوجود وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہے تھے، ان کےمطابق ابتداء میں وہ ایک سپاہی تھے اور ایران کے شمال مغربی حصے میں خدمات سر انجام دے رہے تھے، جہاں وہ صوبہ مغربی آذربائیجان میں کُردی علیحدگی پسند تحریک کا مقابلہ کررہے تھے۔22ستمبر 1980ء کو آٹھ سالہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی ایران ،عراق جنگ (دفاعِ مقدّس) شروع ہوئی۔ جنرل قاسم سلیمانی کو 23،22سال کی عمر میں ہی سپاہ ِپاسداران کے اس وقت کےکمانڈر محسن رضائی کے حکم پر1982ء میں صوبہ کرمان کے جوانوں پر مشتمل ایک بریگیڈ41 (ثاراللہ) کی قیادت سونپ دی گئی کہ جس میں شامل جوانوں کی تربیت جنرل سلیمانی نے بذاتِ خود کی تھی۔ اس بریگیڈ کی قیادت کرتے ہوئے آپ نے اس جنگ کے بہت سے آپریشنز میں حصہ لیا۔ آپ اِن میں سے والفجر 8، کربلاء 4 اور کربلاء 5 نامی آپریشنز کے کمانڈرز میں سے تھے۔ جنگ میں جلد ہی جنرل سلیمانی نے شہرت پائی اور ایرانیوں سے داد و تحسین حاصل کی، عراق فوجیوں کے قبضے سے ایرانی زمینوں کو پھر سے حاصل کرنے میں جنرل سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا ۔ جنگ کے اختتام کے بعد جنرل قاسم کو صوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب فورس کی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ صوبہ افغانستان سے قریب ہونے کی وجہ سے افغانستان میں کاشت ہونیوالی منشیات کی گزر گاہ تھی، جس کے ذریعے یہ مواد ترکی اور پھر یورپ سمگل کیے جاتے تھے۔ مگر جنرل سلیمانی نے اس غیر قانونی مواد کی سمگلنگ کا بھرپور مقابلہ کیا اور منشیات سمگلنگ کی روک تھام میں شہرت حاصل کی۔

تقریبا 15 سال (1982ء سے1997ء) تک اس بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے مختلف میدانوں میں کامیابیوں کے بعد جنرل قاسم سلیمانی کو ترقی دی گئی اور انہیں ایرانی فوج کے 10 اہم فوجیوں میں شمار کیا جانے لگا۔ 1998ءمیں جنرل قاسم سلیمانی کو جنرل احمد وحیدی کی جگہ القدس بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو سپریم لیڈر آیۃ اللہ خامنہ ای نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ جنرل سلیمانی کو 1998ء میں القدس بریگیڈ کی کمانڈسونپی گئی جو کہ پاسداران انقلاب کا اہم حصہ مانا جاتا ہے۔2007ء میں جب جنرل یحییٰ رحیم صفوی دستبردار ہوئے تھے تو جنرل سلیمانی پاسداران انقلاب کی سربراہی کیلئے بھی دیگر چند جرنیلوں کیساتھ نامزد ہوئے تھے۔ 24جنوری 2011ء میں جنرل سلیمانی کو ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کےحکم پر میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای اور جنرل قاسم کے درمیان گہرے تعلقات پائے جاتے تھے اور آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کو ’’زندہ شہید ‘‘ کا لقب دیا تھا۔ موجودہ دور میں جنرل قاسم سلیمانی کو مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فوجی شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ کی طرف سے جنرل قاسم سلیمانی پر دہشت گردی کے الزامات عائد ہونے کےساتھ ساتھ اُن پر پابندیاں بھی عائد تھیں۔ سعودی عرب بھی جنرل قاسم، القدس بریگیڈ اور پاسداران انقلاب پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات عائد کرتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کو اپنی قرارداد نمبر 1747 کے تحت دہشت گرد افراد کی لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی ان تمام الزامات کے برعکس مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انتہائی فعال اور ناقابل فراموش کردار ادا کر رہےتھے۔ عراق میں داعش کیخلاف جنگ میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار سے سبھی واقف ہیں، عراقی حکومت کی گزارش پر جنرل قاسم سلیمانی متعدد عراقی شہروں کو آزاد کرنے کیلئے عراق میں موجود رہے۔ شامی حکومت نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات سے استفادہ کرنے کیلئے ایرانی حکومت سے درخواست کی تھی جس کے بعدجنرل قاسم سلیمانی نے شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کی شکست میں فعال کردار ادا کیا۔ بالآخر شام اور لبنان سے واپسی پر 3 جنوری 2020ء شبِ جمعہ کی سحری کے وقت بغداد ائیرپورٹ کے قریب آپ کو اپنے چند عظیم ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ان شہداء کے جنازوں کے عظیم استقبال، تشییعِ جنازہ اور نمازِ جنازہ کے لیے عراق میں کاظمین، بغداد، کربلا اورنجف میں لاکھوں شیعہ سنّی افراد نے شرکت کی اور پھر ایران میں بھی خوزستان، مشہد، تہران، قم میں عظیم استقبال، تشییعِ جنازہ اور نمازِ جنازہ کے بعد بالآخر ان کی اپنی وصیّت کے مطابق ان کو اپنے آبائی علاقے کرمان کے گلزارِ شہدا میں انہی کی طے کردہ جگہ میں دفن کیا گیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے تسلیت کے پیغام سے اقتباس:
“عظیم سردار آقائے حاج قاسم سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی خبر سے انتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔ عراق میں اس عظیم مرحوم کی داعش کے خلاف سالہا سال کی بے مثال خدمات اور اس قدر زحمتیں جو انہوں نے اٹھائیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں…”۔(8 جمادی الاول ۔1441 ھ۔ق)
سید حسن نصراللہ کا 5جنوری2020ء کے خطاب میں بیان :”جب امریکی افواج کے تابوت اس ملک پہنچنا شروع ہوں گے تو ٹرمپ اور اس کی حکومت کو معلوم ہو گا کہ انہوں نے کیا غلطی کی ہے۔ وہ اس علاقے کو ہار چکے ہیں اور انتخابات میں بھی ہاریں گے۔ قاسم سلیمانی ؒ اور ابو مہدی کے خون کا انتقام، ہمارے پورے اس علاقے سے امریکی افواج کا مکمل انخلاء ہے۔ جب امریکہ اس علاقے سے نکل گیا تو صیہونی (اسرائیلی) بھی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلے جائیں گے اور پھر شاید اسرائیل سے جنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔
لگتا ہے کہ امریکہ کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کر کیا رہے ہیں! “۔