تاریخ اس بات کو کبھی بھی نہیں بھول سکتی کہ آج سے کچھ ہی عرصہ قبل ایک مرد خدا نے جب صرف اپنےاللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اتحاد کی آواز بلند کی اور مومنین نےان کی آواز پر لبیک کہا تو دنیا کا نقشہ بدلنا شروع ہو گیا ۔ یہ اسی آواز کی گونج تھی کہ جس نے چودہ سو سال قبل مدینہ منورہ کی سرزمین پر ایک دوسرے کے جانی دشمنوں کو اخوت کی وہ مثال قائم کرنے کے قابل بنا دیا تھا کہ آج تک دنیا انگشت بہ دنداں ہے۔
ہاں نام نہاد ترقی یافتہ دنیا نےاپنے مفادات خطرے میں دیکھے تو ان کے مقابل محاذ کھول دیا ۔فقط یہی نہیں بلکہ ان کے تمام دشمنوں کو جدید ترین ہتھیار دے کران کے خلاف لا کھڑا کیا ،لیکن ملت کا اتحاد اتنا طاقتور تھا کہ ملت نےتمام سازشوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر جب اسلامی انقلاب نے دشمن پر غلبہ حاصل کرلیا اور شاہی حکومت کے تمام ستون منہدم کردیے تو سامراج کے حمایت یافتہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں گروہوں نے انقلاب اسلامی کی مخالفت شروع کردی لیکن چونکہ ملت متحد تھی لہذا ان تمام گروہوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
” پوری ایرانی قوم کے درمیان جو وحدت پیدا ہوئی تھی وہ یہ ایک معجزہ تھا۔ کوئی انسان یہ وحدت پیدا نہیں کر سکتا، یہ معجزہ تھا، یہ امرِ الہٰی تھا یہ خدائی کام تھا نہ کہ کسی بشر کا کام”۔ (1)
یہ تھا اس مرد قلندر کا پیغام کہ جس کی ہر بات کا ماخذ و منبع یا اللہ کا قرآن تھا یا مصطفی ؐ و مرتضیؑ کا فرمان ۔
ارشاد الہی ہے کہ:
” اور خداوند متعال نے مومنین کے دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا اور ان کے درمیان اُلفت و محبت پیدا کی کہ اگر آپؐ جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کر دیتے (تاکہ یہ وحدت حاصل ہو جائے) پھر بھی ان کے دلوں میں باہمی اُلفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن خداوند عالم نے ان کے درمیان یہ اُلفت و محبت پیدا کردی ہے”۔ (2)
رحمۃ للعالمین ، سید الانبیاء والبشر حضرت محمد مصطفی ؐ کا ارشاد ہے کہ : “آپس میں اختلاف نہ کرو ،اس لیے کہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا پس وہ ہلاک ہو گئے” ۔ (3)
امیر المومنین ؑ نے گویا اسی کلام کی وضاحت فرما دی کہ :
“پس دیکھو کہ قوم بنی اسرائیل کی کیا حالت تھی جب وہ متحد تھے ، افکار ایک ، دل ایک ، ہاتھ ایک دوسرے کے مددگار،تلواریں ایک دوسرے کی مددکو تیار ، اہداف اور فیصلے ایک تھے تو کیا انہوں نے زمین میں جہان والوں پر حکومت نہیں کی ؟؟؟…. پھر ان کے انجام کی طرف بھی غور کرو کہ جب ان میں تفرقہ پڑ گیا ، محبت و الفت بکھر گئی ، باتیں اور دل مختلف ہو گئے ، گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو گئے ، ایک دوسرے سے منتشر ہو کر جنگیں کرنے لگے تو اللہ نے ان کے لباس عزت کو ان سے اتار لیا ، نعمتوں کی فراوانی کو ان سے سلب کر لیا اور جو باقی بچا وہ فقط ان کا وہ تذکرہ کہ جس میں عبرت لینے والوں کے لیےدرس عبرت موجود ہے “۔(4)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) صحیفہ امام خمینیؒ ، ج : 16، ص: 310
(2) انفال : 63
(3) کنز العمال، حدیث 894
(4) نهج البلاغه، خطبه 192
خمینی بت شکن ؒنے انہی اسلامی تعلیمات کی وضاحت میں مزید فرمایا کہ :
” تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ’’ید واحدہ(ایک ہاتھ)‘‘ بن کر رہیں تاکہ اپنے ممالک میں مداخلت کرنے والے مستکبرین و مستعمرین اور غیروں کے ہاتھ کاٹ سکیں” ۔(1)
“تمام اسلامی ممالک کے مومنین اگر اسی ایک خدائی حکم پر (کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے) عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکےگی”۔(2)
“یہی حکم جو کہ قرآن میں ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں یہ ایک اخلاقی حکم بھی ہے، ایک معاشرتی و اجتماعی حکم بھی ہے، ایک سیاسی حکم بھی ہے…۔
قرآن کے احکام مہجور و متروک ہیں… ہم اسلام کے اکثر سیاسی احکام پر عمل نہیں کرتے… قرآن ہماری زندگی کے تمام مسائل اور اُمور میں موجود ہونا چاہیے۔ ۔۔ ان ترقی یافتہ سیاسی احکام پر اگر عمل ہو جائے تو پوری دنیا کی حکمرانی آپ کے ہاتھ میں ہوگی “۔(3)
کتنے ہی عالمی شہرت یافتہ اسلامی مصلح رہبروں اور علماء نے خواہ وہ شیعہ ہوں یاسنی ، اسی وحدت امت اسلامیہ کا درس دیا کہ جن میں شیخ محمد عبده ؒ، سید‌ جمال‌الدین ؒ، آیت‌الله بروجردی ؒ، شیخ شلتوتؒ، سید قطبؒ ،۔۔۔کے نام قابل ذکر ہیں ۔امام خمینی ؒ نے تو اس حکم خدا و رسول ؐ کو ایسا عملی کر دکھایا کہ چالیس سال گذرنے کے باوجود بھی پوری دنیا کی شیطانی قوتیں اس کے اثر کو زائل کرنے میں ناکام ہیں ۔اور آج کے دور میں انہی کے جانشین برحق ، ولی امر مسلمین ، رہبر معظم ، سید علی خامنہ ای نے اسی وحدت کی قوت سے
تمام عالمی استعماری قوتوں کو اپنے سارے اتحادیوں سمیت ہر میدان میں شکست فاش دی ۔

ہمارا سلام ہو ان شیعہ سنی علماء پر کہ جنہوں نے ہر دور کے ناصبیوں اور صیہونیوں کے خلاف علم جہاد بلند کر کے محبت اہلبیت ؑ میں اپنی جانیں نچھاور کیں ۔
ہمارا سلام ہو ان شیعہ سنی جوانوں پر کہ جنہوں نے حرم اہلبیت ؑ کی حفاظت اور قبلہ اول ،بیت المقدس کی آزادی کی راہ میں ظالموں کے ہاتھ کاٹ کر رکھ دیے۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ
اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان فرمائیں کہ جنہیں زمین میں کمزور بنا دیا گیاتھا اور اُن کو پیشوا بنائیں اور ان کے ملک و مال کا اُنہیں کو وارث بنائیں۔(4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) صحیفہ امام خمینیؒ ، ج : 2، ص : 403
(2) صحیفہ امام خمینیؒ ، ج : 20، ص : 226
(3) صحیفہ امام خمینیؒ ، ج : 16، ص : 38
(4) قصص : 5۔