اس قسم کے حالات پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی رحلت کے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے، ابتداء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے صحابہ کرام سے لے کر آپؐ کے قریبی ساتھیوں نے، جنہیں آپؐ کے ہمراہ کئی جنگوں میں حصّہ لینے کا شرف حاصل ہوا تھا، اپنے لیے خصوصی مراعات حاصل کرنا شروع کیں۔ اِن مراعات میں سے ایک، بیت المال سے زیادہ سے زیادہ مال وصول کرنا تھا۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ ان کو دوسروں کے برابر سمجھنا صحیح نہیں ہے، یعنی یہ لوگ دوسروں کے برابر نہیں ہوسکتے!

یہ کجروی کی پہلی اینٹ تھی۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے انحرافات میں آہستہ آہستہ تیزی آنا شروع ہوئی اور یہیں سے انحرافات پیدا ہونا شروع ہوگئے اور خلیفۂ سوم کے دورِ حکومت کے وسط تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور اس کے دورِ حکومت میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے (بعض) برجستہ صحابہ کرام کا شمار اپنے زمانے کے بڑے سرمایہ داروں میں ہونے لگا! آپ غور فرمائیں! یعنی یہی بڑے بڑے صحابہ کرام کہ جن کا نام بھی مشہور ہیں: طلحہ، زبیر، سعد ابن ابی وقاص وغیرہ کہ ان میں سے ہر ایک کے جنگِ بدر، جنگِ حنین اور جنگِ اُحد کے کارنامے اگر لکھے جائیں تو ایک اچھی خاصی کتاب بن جائے گی۔ اب ان کا شمار عالمِ اسلام کے بڑے سرمایہ داروں میں ہونے لگا تھا۔ اِن میں سے ایک کا جب انتقال ہوا اور اس کی جائیداد میں سے سونے کو اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا، تو سب سے پہلے سونے کو اینٹوں میں تبدیل کیا گیا اور اس کے بعد اِن اینٹوں کو لکڑیوں کی طرح کلہاڑی کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑا گیا! جبکہ اصولاً سونے کو مثقال کے وزن کے ذریعے جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔

آپ خود غور فرمائیں کہ اس کے پاس کتنا سونا ہوگا کہ جسے کلہاڑی کے ذریعے کاٹا گیا ہو! یہ وہ حقائق ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں، یہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی یہ کہہ دے کہ یہ باتیں شیعوں نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں، بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں محفوظ کرنے کی سب نے کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے بعد جو درہم و دینار چھوڑے، ان کا کوئی حساب نہ تھا۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 178 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی