وہ حسین علیہ السلام جو پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں یا ایک صحراء میں بھرے بھیڑیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے نہیں گھبراتے، لیکن یہی شخص کبھی بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مقابلے میں منقلب ہو جاتے ہیں؛ مثلاً اُس وقت جب ایک حبشی غلام زخمی ہو کر زمین پر گر گیا، شاید وہ ابوذر غفاریؓ کا غلام ’’جون‘‘ تھا، جو امامؑ کے چاہنے والوں اور آپؑ کے ارادتمندوں میں سے تھا۔ اجتماعی اور معاشرتی حوالے سے اُس دور کے مسلمانوں میں غلام کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی خاندانی لحاظ سے کسی اعلٰی خاندان سے اس کا تعلق تھا۔

عاشورہ کے دِن کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں بڑے بڑے لوگوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے، جیسے حبیب ابنِ مظاہر، زُہیر ابن قین اور دیگر شہدائے کربلا جن کا شمار کوفہ کے بڑے بزرگوں میں ہوتا تھا، ان میں سے کسی ایک کی شہادت پر بھی امام حسین علیہ السلام نے ایسا ردِّعمل ظاہر نہیں کیا تھا، جو ردِّعمل اِس حبشی غلام کی شہادت پر دکھایا۔ جب مسلم ابنِ عوسجہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے تو آپؑ نے مسلم ابن عوسجہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اِن شَاءاللہ تم اللہ تعالٰی سے اس کا اجر پاؤ گے۔‘‘ لیکن جب یہ حبشی غلام زمین پر گرتا ہے کہ جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اِس کا کوئی رشتہ دار اِس پر رونے والا ہے تو، امام حسین علیہ السلام آگے بڑھتے ہیں اور اِس غلام کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں، جو آپؑ نے حضرت علی اکبر علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، یعنی امام حسین علیہ السلام اِس غلام کے سرہانے زمین پر بیٹھ گئے اور اس کے خون آلود سر کو اپنے زانو پر رکھا، لیکن امامؑ کے دل کو تب بھی سکون نہیں ملا اور سب نے یہ منظر دیکھا کہ ایک مرتبہ امام عالی مقامؑ نے اپنے چہرۂ مبارک کو ’’جون‘‘ کے خون آلود چہرے پر رکھا۔ یوں انسانی ہمدردی اور احساس کا ایک منظر سامنے آگیا!

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 207 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی