انسانی زندگی میں عموماً انسان کو دوطرح کے حالات کا سامنا ہوتا ہے، کبھی انسان خوشی و مسرت کے خوشگوار لمحات سے دوچار ہوتا ہے۔ اور کبھی اس پر رنج و غم، بے چینی اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ انسان کی زندگی میں آنے والے مصائب و آلام، انسانی تکامل کا ذریعہ قرار پاتے ہیں چنانچہ انسانیت کی تاریخ بتلاتی ہےکہ کامیابی اور قربت خداوندی، مصائب و آزمائش کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے اور اسکی مثال ایک ہی بدن کی اعضاء کی مانند ہے اگر انسانی بدن کے اعضاء میں سے کوئی ایک عضو رنج و تکلیف سے دوچار ہوجائے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین رہتے ہیں، یہی کیفیت ایک ہی معاشرے میں زندگی گزارنے والے انسانوں کی بھی ہے، اگر کوئی کسی مصیبت میں مبتلاء ہوجائے تو انسانی اور اخلاقی اقدار کی بنا پر دوسرے لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صاحب غم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں تاکہ اسے سکون اور آرامش حاصل ہوسکے اور صاحب غم سے غم کا بوجھ ہلکا ہو اور اسی کا نام عزاء تعزیہ ہے چنانچہ تعزیت بھی اسی سے ماخوذ ہے۔

عزاداری کا سرچشمہ اور اسکا فلسفہ کیا ہے؟ انسانی زندگی پر عزاداری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ عزادار اور سوگ منانے والے کے دل میں ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کی نسبت کس طرح کا جذبہ ابھرتا ہے، سوگوار شخص کے متعلق معاشرے کے دیگر افراد پر کونسی ذمہ عائد ہوتی ہے؟ عزاداری کا سماجی نفسیات سے کیا رابطہ ہے؟ ان سوالات کا جواب، علامہ تقی مصباح یزدی رضوان اللہ تعالی علیہ کے علمی بیانات پر مشتمل اس ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

#ویڈیو #مصباح_یزدی #عزاداری #اصول #عقلی_شناخت #سماجی_نفسیات #جذبات #مصیبت #ہمدردی #تعزیت #رد_العمل

کل ملاحظات: 2055