شام میں جہاں امام زین العابدین علیہ السلام کو مسلسل کئی دِن تک اسیروں کے ساتھ قید رکھ کر آپؑ کے ساتھ انتہائی باگفتہ بہ سلوک روا رکھا گیا تھا۔ یزید نے سوچا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کو (اسیری کی حالت میں) اپنے ساتھ مسجد میں لے جائے، تاکہ لوگوں کے سامنے امام علیہ السلام کو نفسیاتی اعتبار سے کمزور کر سکے اور کوئی ایسا کام کرے کہ اِس کے مخالفین اور امامؑ کے چاہنے والے جو ہر جگہ موجود تھے، وہ اِس کی حکومت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔
اِس موقع پر امام زین العابدین علیہ السلام نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا: اجازت دو تو میں بھی اِن لکڑیوں پر چڑھ کر اِن لوگوں سے کچھ باتیں کروں۔ یزید سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم، ایک ایسا جوان جو اسیر بھی ہے اور بیمار بھی، جو اِس پوری مدّت میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر کافی کمزور بھی ہو چکا ہے، وہ اس کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔ یزید نے امام عالی مقامؑ کو اجازت دی۔ آپؑ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے فلسفۂ امامت اور واقعۂ کربلا کو بیان کرتے ہوئے، بنو اُمیہ کی حکومت کی سیاہ کاریوں کو خود انہیں کی حکومت کے مرکز میں فاش کر دیا۔ (یعنی) امامؑ نے ایک ایسا کام کر دیا کہ اہلِ شام میں بغاوت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔
یعنی امام زین العابدین علیہ السلام ایک ایسی عظیم شخصیت ہیں کہ عُبید اللہ ابنِ زیاد اور شام کے فریب خوردہ لوگوں کے جلسۂ عام میں، یزید کے حکومتی کارندوں کی موجودگی میں بغیر کسی خوف کے حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئے حق اور سچ بات کہہ دیتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپؑ کی نظر میں زندگی کی کوئی اہمیت نہ ہو۔
حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 217 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی