آل سعود ، مسلمانوں کی تاریخ کا وہ بدنما داغ ہیں جس کی سیاہی کو دیکھ کر آج ان کے ہمنوا بھی شرم سے سر جھکا رہے ہیں، خادم الحرمین شریفین کے مقدّس عنوان سے معروف یہ غیرمقدّس قبائلی گروہ در حقیقت دُشمن حرمین شریفین اور خادم الحرمین الامریکین ثابت ہوا ہے، ان دو امریکی حرموں میں سے ایک’’اسرائیل‘‘اور دوسرا ’’ تکفیریت‘‘ کا وجود ہے۔ یہ دو وہ امریکی حرم ہیں جن کی حفاظت کی خاطر امریکہ نے اپنی ہر ممکن کوشش انجام دی ہے اور دے رہا ہے کیونکہ ان کا تحفظ دراصل عالمی صیہونی شیطانی نظام اور ان کے خبیث منصوبہ سازوں کا تحفظ ہے اور تحفظ کی ان ہی کوششوں کا ایک حصّہ آل سعود کی حمایت اور پشت پناہی ہے۔

اگر وہابیت اور آل سعود کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ’’خالص اسلام اور اسلاف کی پیروی‘‘ کا نعرہ لگا کر بر سر اقتدار آنے والے اس گروہ نے آج تک عصر حاضر میں  اسلام دشمنوں یعنی امریکی،برطانوی اور اسرائیلی استکبار کے خلاف کوئی اقدام  کیوں نہیں کیا  بلکہ ہر موقع پر ان کی سیاست و منصوبوں میں ایک معاون و مدد گار کی حیثیت سے نظر آئے ہیں۔ اس  سوال کا جواب  آل سعود کی تاریخ، ان کے تشکیلی مراحل اور استعمار کے ہاتھوں ان سے کئے جانے والے معاہدوں کا مطالعہ کرنے سے مل جاتا ہے، نہ فقط یہ بلکہ یہ اہم ترین راز بھی فاش ہوتا ہے کہ آل سعود فقط سیاست و منصوبوں ہی میں نہیں بلکہ ’’نسلی‘‘ اعتبار سے بھی یہودی و صیہونی منصوبہ سازوں سے اشتراک رکھتے ہیں اور یہودی قبائل ہی  کا ایک حصّہ ہیں۔

آل سعود کی تاریخ پر ایک نظر

کچھ اہم سوالات ایسے ہیں جو آل سعود کی تاریخ پر  ایک دقیق نگاہ ڈالنے اور ان کے وجود کی حقیقت کے بارے میں جاننے  کا سبب بنتے ہیں، وہ سوالات یہ ہیں کہ  اپنے اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر قرار دےکر ان کے جان و مال و عزت و ناموس کو پامال کرنے والے یہ تکفیری قبائلی بھیڑیے آج تک امریکہ و اسرائیل  جیسے دُشمنان ِاسلام و قرآن کے کسی مفاد پر حملہ آور   کیوں نہیں ہوئے؟

وہ کون سی وجوہات ہیں کہ  جن کی بناء پر اس سفاک تکفیری خاندان اور اس سے وابستہ گروہوں نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کی جان و مال و ناموس کو برباد کرنے کےساتھ ساتھ ہمیشہ مسلمانوں کے مقدّس مقامات پر حملے کئے اور اصحاب کرام  ؒ و اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزارات کو ڈھانے کی ناپاک حرکت کی اور آج بھی ہر گزرتے دن کےساتھ یمن جیسے  ملک کہ جو تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اسلام اور تاریخ اسلام سے مربوط ہے ، ایسےاسلامی ملک کے مسلمان عوام کا اس سفّاکیت و بربریت سے قتل عام کیوں کر رہے ہیں اور بحرین و مصر میں  وہاں کے عوام کے حق کو کُچلنےکے لئےمسلمانوں کے قاتل حکمرانوں کی مالی و سیاسی سرپرستی  کیوں کر رہے ہیں؟

آخرکس منطق اور دلیل کی بنیا دپر مکہ کی سرزمین پر حکم خدا کو بجا لانے اور استکبار و طاغوت کیخلاف آواز بلند کرنے والے 400سے زیادہ خدا کے مہمانوں کا خون بہایا اور کبھی پوری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان تکفیری قوتوں کو ایجاد  کرکے  اسلام دُشمنوں سے جاری جنگ کو مسلمان معاشروں میں داخل کرکے عالمی صیہونی شیطانی پیروکاروں کی نئی زندگی کا باعث بنے ؟

آخر کیوں آل سعود ، مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والی  غاصب اسرائیلی ریاست کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے مقابل ڈٹ جانے والی سُنی المسلک  حماس، اسلامی جہاد اور حزب اللہ جیسی مجاہد تنظیموں کے خلاف فتویٰ جاری کروا کر ان کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور ان کی ہر قسم کی معاونت کو شرعی طور پر حرام قرار دے  دیا گیا؟

شرک و کفر کے خلاف نعرے لگا لگا کر مسلمانوں کی جان و مال و ناموس کو رُسوا ا ور برباد کرنے والے یہ  مجرم، امریکہ و اسرائیل  جیسے  شرک و کفر کے عالمی ٹھیکیداروں اور اسلام دُشمن حکومتوں کے خلاف لڑنے کی بجائےحجاز کی مقدّس سرزمین سے برآمد ہونے والے قدرتی ذخائر جیسےتیل  اور حجاج کرام سے حج کے انتظامی اُمور کے نام پر لی گئی رقوم پر  ان مشرکین؛ اسلام دُشمن طاقتوں سے ٹریلین ڈالرز کے دفاعی معاہدےاور اسلحے کی خریداری  سمیت دوستی کے عنوان سے  اربوں ڈالزر کے تحائف ان قاتل  حکمرانوں کی نذر کر چکے ہیں۔۔ آخر کیوں؟

چند ماہ قبل ہی  آل سعود کی طرف سے  اربوں ڈالزر کے تحائف پانے والے  سعودیہ کے فوجی اتحادی ، شیطان بزرگ امریکہ کی طرف سےفلسطین کے دارالحکومت  قدس شریف کو  اسرائیل کی ناجائز ریاست  کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا جا چکا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں سمیت  حتّی کافر حکومتیں بھی اس ظلم پر خاموش نہ رہ سکیں جبکہ  حرمین شریفین کے خادم ہونے کے ان دعویٰ داروں نے اس ظلم پر کوئی عملی اقدام کرنا تو دور کی بات  فقط  امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایک معمولی سا بیان بھی جاری نہیں کیا؟  اور اس ظلم پرخاموش بیٹھے ہیں،آخر کیوں؟

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو عصر حاضر کے اس حسّاس دور میں  اس  گروہ کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ہر عقلمند اور اسلام و مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے والے فرد کے ذہن میں اُٹھ رہے ہیں اور ان ہی  سوالات کا جوابات پانے کیلئے ضروری ہے کہ آل سعود کی تاریخ اور ان کے تشکیلی مراحل کا جائزہ لیا جائے ، زیر نظر مقالے میں ہماری کوشش رہے گی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ  کی مدد سے  مستند تاریخی حوالہ جات کےساتھ ان تمام سوالات کےجوابات پانے کیلئے   ان کی تاریخ کا ایک تحلیلی جائزہ اپنے قارئین  کی خدمت میں پیش کیا جائے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ہی سے دین اسلام کی ترقی کا راستہ روکنے کیلئے منافقین اور مدینہ کے یہودیوں نے سازشوں کے جال بُنے اور اسلام کی آمد کےساتھ ہی یہودی اپنے شخصی اور گروہی مفادات کے تحفظ کیلئے منصوبہ بندیاں انجام دیتے چلے آئے ہیں۔

انسانی معاشرے میں عدل و انصاف پر مبنی اسلام کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اورعلمی و ثقافتی میدانوں میں کامیابیاں دیکھ کر یہود و نصاریٰ اور منافقین کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں، لہٰذا اُنہوں نے ہمیشہ سے اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کے خلاف طول تاریخ میں سازشوں پر سازشیں تیار کی ہیں، انہی سازشوں کے تسلسل اور یہود و نصاریٰ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اسلامی معاشروں میں دُنیا پرستی، عیاشی اور تجمل شاہانہ  کی سی بیماریاں داخل کرنے کیلئے اسلامی روح سے خالی حکمران لائے گئے اور اس کے نتیجے میں مسلمان  معاشروں کو برباد کرکے  صلیبی جنگوں اوردیگر سازشی حربوں کے ذریعے مسلمانوں کی حاکمیت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس ساری صورتحال میں مسلمان بھی خاموش نہیں بیٹھے اور کم یا زیادہ تعداد میں ہمیشہ سے اسلام پسند مخلص قوتوں نے اسلام کی حاکمیت اور کفّار و مشرکین کی سازشوں کے مقابل اسلام و مسلمانیت کے احیاء کی کوششیں انجام دی ہیں اورکسی حد تک مسلمانوں میں بیداری  اور دُشمن شناسی کے حوالے سے کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہی وہ کوششیں تھیں جن کی وجہ سے ہر دور میں اسلامی حریت پسندوں اور مجاہدین نے دُشمنان اسلام کے خلاف  علمی ، فکری اور سیاسی محاذوں پر مزاحمت و مقاومت  کی ہے اور عوامی سطح پر مسلمان معاشروں کو اسلامی نظام کے احیاء اور نفاذ کیلئے کوششوں پر اُبھارا ہے۔

دشمنان اسلام نے اس کے جواب میں مسلمانوں کے درمیان ایک طرف دُنیا  پرستی،اخلاقی فساداور عیاشی جیسی صفات پیدا کرکے ان کو آہستہ آہستہ اسلامی روح سے خالی  کرکے  اسلامی حمیّت و غیرت سے دور کردیا اور پھر  علمی سرگرمیوں کے نام پر  غیر دینی نظریات اور تفکرات کی بھرمار کرکے اس اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ، دوسری جانب  ان فسادوں سے کسی نہ کسی طرح بچ جانے ولے دیندار مسلمانوں کے درمیان فرقوں اور گروہوں کو ایجاد کیا  اور پہلے سے موجودمختلف  اسلامی  مذاہب کے درمیان  نفرت اور فرقہ پرستی کی دیوار کھڑی کرکے مسلمانوں کی بربادی کا ایک نیا دور شروع کیا، اس سلسلے کی ایک سازش شیعہ معاشروں میں بہائی اور سُنی معاشرے میں وہابیت کو ایجاد کرکےانجام دی گئی۔

آل سعود کی سرپرستی میں وہابیت کی شکل میں تیار کی گئی یہ نئی سازش اتنی کامیاب رہی کہ اس وہابی تفکر کے تحت پروان چڑھنے والی تکفیری ذہنیت نے  پوری اسلامی دنیا  کو امریکہ و اسرائیل جیسے دُشمنان اسلام کے مقابلے سے ہٹا کر ایک دوسرے کیخلاف برسرپیکار کردیا اور ایک انقلابی توحید پرست اسلام کو وہابی تکفیری سوچ کے ہاتھوں اسلام کے نام پر القاعدہ و داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں   بنا کر ان کو اس حقیقی اسلام کے ساتھ جنگ میں مشغول کرکے استکبار کو دوبارہ سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا۔[1] یہ وہ حقیقت ہے کہ آج بیسیوں سال بعد خودسابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی  اس کا اقرار کیا ہے۔[2]

(جاری ہے)


  1. www.globalresearch.ca
  2. www.thepoliticalinsider.com