شیخ باقرالنمر کی مظلومانہ شہادت عصرحاضر کے بے حس انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے وجودپرایک سوالیہ نشان ہے۔وہ مظلوم شہیدکہ جسے اپنے بنیادی انسانی حقوق کے مطالبے اورآلِ سعودکے ظلم وستم پرآواز اُٹھانے کےجرم میں شہیدکردیاگیا۔اِس تحریر میں شہیدکی زندگی اورآپ کی جدوجہدکے  حوالے سے سیرحاصل آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔

انقلاب اسلامی ایران کے عالمی اثرات پر گہری نگاہ رکھنے والے افراد اور تجزیہ نگار یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی فقط ایران میں ایک اسلامی نظام کی تشکیل اور مذہبی طبقہ کی بالادستی ہی میں منحصر نہیں بلکہ انقلاب اسلامی ایران کی اصل طاقت اور اسکی اصل کامیابی یہ ہے کہ عوامی سطح پر دین و سیاست کے جدا نہ ہونے اور علما کےدرمیان اسلامی حکومت کی تشکیل یا سیاسی اسلام کے نظریہ کا، ایک طاقتور حقیقت کے عنوان سے ابھر کر سامنے آنا ہے۔
دین کی بالادستی اور عوامی طاقت پر اعتماد کرکے دنیا بھر کے استکبار و استعمار کو شکست دینے سے اور مظلوم عوام کی حمایت سے عالمی طاغوت سے مسلسل پنجہ آزمائی کرکے اسلامی انقلابی نظام کوقدم قدم پر ملتی کامیابیاں دنیا بھر کے حریت پسندوں اور حُریّت پسند افراد کیلئے ظلم کی سیاہ رات میں امید کی وہ کرن بن کر سامنے آئی ہیں کہ جس کی روشنی میں دنیا بھر کے اسلام پسند عوام میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا بھر کے غیرمسلم عوام امام خمینی کی دکھائی ہوئی راہ پر چل کر ظلم و استکبار کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
بیداری کی اس لہر کا ایک عظیم حصہ وحی کی مقدس سرزمین پر ابھرنے والی اسلامی مقاومت کی وہ لہر ہے جس نے اسلام دشمنوں کو حیران و پریشان اور اسلام پسندوں کے دلوں کو مسرور کرکے عالمی اسلامی بیداری کی تحریک میں ایک اور سنگ میل کا اضافہ کر دیا ہے۔
جس طرح انقلاب اسلامی کا تذکرہ آتے ہی امام خمینی کی عظیم شخصیت اور ان کا مقدس نام ابھر کر سامنے آتا ہے اُسی طرح سعودی عرب کی سرزمین پر جہاد و مقاومت اور ظلم کیخلاف اٹھنے والی تحریک کا نام آتے ہی آیت اللہ شیخ باقر النمر کا نام ذہن میں ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
1959 میں سرزمینِ وحی عربستان میں علماء و فقہاء کے خاندان میں آنکھیں کھولنے والے مکتب اہل بیت ؑ کے اس عظیم سُپُوت نے انٹر میڈیٹ تک عوامیہ کے مقامی سکول میں تعلیم حاصل کی اور دینی علوم کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے حکومتِ اسلامی کے دارلحکومت اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے دل کی امید، شہر تہران میں آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی کے تأ سیس کردہ مدرسے’’القائم ‘‘ میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب ہجرت فرمائی۔تقریباً دس سال سرزمین خون و قیام اسلامی جمہوریہ ایران میں رہ کر علم حاصل کرنے کے بعد شام کےمقدس شہر دمشق میں واقع مدرسہ زینبیہ کا سفر کیا ۔ شہید نے ایران ، شام اورپھر سعودی عرب میں حوزوی دروس کی تدریس بھی کی، جن میں مکاسب، رسائل اور کفایہ کی تدریس شامل ہے ۔
سماجی سرگرمیاں:
شیخ نمر نے 2003 میں اپنے وطن واپس پلٹ کر آنے کے بعد عوامیہ نامی شہر میں نماز جمعہ قائم کی۔اس سے پہلے انہوں نے عوامیہ میں الامام القائم(عج) کے نام سے ایک مذہبی ادارے کی بنیاد رکھی اور 2011 میں اُسی ادارے کو اسلامی مرکز کے قیام کی بنیاد بھی قرار دیا۔
اسی طرح وہ مساجد کی آباد کاری،اقامۂ نماز جمعہ ،فکری اور نظری ابحاث میں وسعت، کتب،مقالات اور متعدد تصنیفی کام،جوانوں کی شادیوں کیلئے سہولیات کی فراہمی،معاشرے میں عورتوں کے کردار کو پُر رنگ کرنے ،جوانوں اور نوجوانوں میں دینی علوم کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی برائیوں کے خلاف اقدام کرنے جیسے بے مثال سماجی کاموں کا مسلسل اہتمام کرتے رہے۔ [1]
سعودی عرب میں انقلاب اسلامی کے فرزند ، شیخ باقر النمر جنت البقیع میں مدفون اَئمہ معصومین ؑکے مزارات کی دوبارہ تعمیر کیلئے نہایت سنجیدگی سے کوشش کرتے رہے ۔وہ 2004 سے لے کر 2007 تک ہر سال روزِ انہدام بقیع کا دن منانے کی کوشش میں رہے لیکن سعودی حکومت ہر سال ان کے اس اقدام کی مخالفت کرتی رہی ۔مگرسعودی حکومت کی جانب سے اس ممنوعیت کے باوجود 2007 تک یہ احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں قبور اَئمہ کے مسمار کرنے کے خلاف اعتراض اور ان مزارات کی دوبارہ تعمیر کی حمایت میں جلوس نکالے گئے.[2]
سیاسی سرگرمیاں: [3]
مکتب ِامام خمینی سے الہام یافتہ عظیم مجتہد شیخ نمر باقرالنمر ،آل سعود کے طاغوتی نظام کے سخت مخالف تھے ، شہید نمر آل سعود کےبادشاہوں اورشہزادوں کوبلاخوف وجھجک سعودی عرب میں رہتے ہوئے تنقید کانشانہ بناتے تھے۔
شیخ نمرباقر النمرکئی مرتبہ گرفتار کیےگئے، مئی2006ء میں بحرین سےواپس آتے ہوئے انہیں سعودی عرب میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا؛گرفتار ہونےسےقبل شیخ نمر کاکہنا تھاکہ:«مجھےیقین ہےکہ میری گرفتاری یا قتل ، عوامی تحریک و انقلاب کاسبب بنے گا»۔ [4]
مارچ 2009ء میں جنت البقیع میں شیعہ زائرین کےخلاف ہونےوالے تشدد کےخلاف شیخ النمر نےاحتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے سعودی ظالم و غاصب نظام کوشدید تنقید کانشانہ بنایا اور سعودی عرب کےشیعہ اکثریت والے مشرقی حصے کی علیحدگی کامطالبہ کردیا جس کے بعد اُن کودوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
26 جون 2012ء میں شاہی خاندان کی آپس کی اقتدار کی جنگ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے والے سعودی ولی عہد اوروزیرداخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی موت کے 10 دن بعد شیخ نمرباقرالنمر نے القطیف شہر میں اپنے منبر پرکھڑے ہوکر نائف بن عبدالعزیز جیسے سفاک شخص کی موت پراطمینان کااظہار کرتے ہوئے نائف کو ظالم اورجابرقرار دیا اورنئے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کوبھی نماز جمعہ میں شدید تنقید کانشانہ بنایا، ان کا یہ خطبہ انتہائی مشہور ہے اور شاید یہی خطبہ بعد میں شہید باقر النمر کی شہادت کا بھی باعث بنا۔
اس خطبے کےبعد 8جولائی 2012ء میں انہیں پُراسرار طور پرگرفتارکرلیا گیا ،گرفتار کرنےسےقبل اُن پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ شہید آیت اللہ باقر النمر کےبھائی محمد باقر النمر کاکہنا ہےکہ جائےگرفتاری پر شیخ نمر کی گاڑی دیوار سےٹکرائی ہوئی تھی اورگاڑی کے باہر خون کے نشان تھے، جن سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ انہیں گاڑی سے نکال کر اُن پرگولیاں چلائی گئی ہیں۔

شہید کے سیاسی افکار :
آیت اللہ باقر النمر امام خمینی کی فکر سے متاثر ہونے کے نتیجہ میں دین و سیاست کی یکجائی اور اسلام کی بالادستی کی راہ میں جدوجہد کے قائل تھے، اسی فکری وابستگی کا نتیجہ تھا کہ شہید نے ظالم حکمرانوں کی اسلام اور شیعہ دشمنی کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا اور مظلوم عوام کے حقوق کو پامال ہوتا دیکھ کر کبھی خاموش نہ بیٹھے۔
2009 میں شہید باقر االنمر نے سعودی حکومت کو تنبیہ دی کہ اگر ہماری حیثیت اور مرتبے کو واپس نہ کیا گیا تو میں یہاں کے شیعہ مسلمانوں کو سعودیہ سے جدا ایک علیحدہ ملک بنانے کی دعوت دوں گا ۔ہماری عزت ملکی سالمیت سے زیادہ اہم ہے ،نیز ملک میں آزاد انتخابات کی برقراری کا مطالبہ کیا ۔
وہ اپنی تقریروں میں مسلسل آلِ سعود کی بنائی گئی جانبدارانہ گروہی سیاستوں کے اجرا اورسعودی عرب کے مشرقی علاقوں خاص طور پر الاحساء اور قطیف میں سعودی حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے رہے ۔
شیخ نمر نے اپنے ایک خطبہ میں سعودی حکومت سے کہا کہ’’ میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ کل مجھے گرفتار کرنے کیلئے آئیں گے۔ گرفتار کرنا ،جیل میں اذیتیں دینا اور قتل کرنا یہی ان کی منطق اور روش ہے لیکن ہم قتل و غارت سے نہیں ڈرتے بلکہ ہم کسی چیز سے ہراساں ہونے والے نہیں ہیں۔‘‘
شیخ نمر آل سعود اور آل خلیفہ کو برطانیہ کا پیروکار سمجھتے تھے ۔شہید سعودی شہری اور بالخصوص شیعہ شہریوں کی اہانت کے حوالے سے بہت زیادہ حساس تھے ۔شہید نمر کی نظر میں آل سعود کی حکومت، شیعہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے اور انہیں ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھتی ہے۔
وہ مسلسل اپنی تقریروں میں خود خواہانہ سیاسی تبدیلیوں ، حکومتی سطح پر عوامی آزادی اوراقلیتوں کے حقوق کو قانونی طور پر قبول نہ کرنے اور سعودیہ میں بعض گروہوں کو ایک کنارے سے لگانے کی مخالفت کرتے رہے ۔شہید باقر النمر عرب اور اسلامی دنیا کی حقیقی اصلاح کو خلیجی عرب حکومتوں کے خاتمے پر منحصر سمجھتے تھے ۔ آل خلیفہ اور دیگر خلیج فارس کے ساتھ واقع عرب ریاستوں کے حکام کو امریکہ کے آلہ کار سمجھتے تھے اور فرماتے تھے :

’’ کسی استثنا کے بغیر خلیج فارس کے تمام عرب ممالک امریکہ کے سائے تلے زندگی گزار رہے  ہیں اور امریکہ کا  پانچواں بحری بیڑہ بحرین اور دیگر عرب ممالک کے تیل کے کنوؤں پر قبضے کی غرض سے اس علاقے میں موجود ہے ۔‘‘[5]

شہید باقر النمر اور ولایت فقیہ کی حمایت:
افغانستان کی تحریکِ جہاد سے تعلق رکھنے والے ایک مردِ مجاہد ’’سید عبدالفتاح حسین پور ‘‘جو مدرسہ القائم تہران میں شہید آیت اللہ باقر النمر کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں رہ چکے تھے ، وہ آیت اللہ باقر النمر کی انقلاب اسلامی سے وابستگی اور اسلامی جمہوریہ ایران سے عقیدت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شہید باقر النمر سعودی غاصب حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:
’’ تمہاری اتنی حیثیت ہی نہیں کہ تم اسلامی جمہوریہ ایران کی توہین کر سکو یا اس کو دھمکی دے سکو، اسلامی جمہوریہ ایران تمہاری سوچوں سے کئی زیادہ با عظمت ہے۔‘‘
سید عبدلفتاح حسین پور مزید فرماتے ہیں شہید نمرآل سعود کے غاصب حکمرانوں کو مخاطب کرکے بولا کرتے تھے:
’’ تم کو وہ وقت تو یاد ہوگا کہ جب صدام نے کویت پر حملہ کیا تو تم سب لوگ اپنے ملک سے فرار کرکے اپنے آقاوں (امریکا و برطانیہ) کے پاس پناہ کیلئے پہنچ گئے تھے، اور اب تم ہو کہ ایران کی مخالفت کررہے ہوں، اس وقت کا ایران آج کے ایران سے کئی زیادہ طاقت ور ہے،یہ تمہاری خام خیالی ہے جو یہ سوچ رہے ہو کہ ایران کے مقابلے میں کسی حیثیت کے مالک ہوگئے ہو۔‘‘ [6]
آل سعود کی بدمعاش حکومت کی نظر میں شہید آیت اللہ باقر النمر کا ایک اور نا قابل بخشش جُرم یہ شمار ہوتا تھا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی انقلاب اور ولی فقیہ آیت اللہ العظمیٰ امام سید علی حسینی خامنہ ای کی حمایت کرتے تھے۔شہید نمر اپنی ایک تقریر میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ولایت فقیہ کی حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’امریکہ کی جرأت نہیں کہ ایران پر حملہ کر سکے کیونکہ امریکہ ایرانیوں کو خوفزدہ نہیں کر سکتا، خود امریکہ اس بات کو جانتا ہے ‘‘۔

شہید مزید فرماتے ہیں:
’’ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ ایرانی عوام اپنے نظام کے خلاف بغاوت کردیں کیونکہ وہ اپنے نظام کے حامی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہاں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے اور وہ جب چاہیں اپنی حکومت کی بعض حکمت عملیوں کی مخالفت بھی کر سکتے ہیں، اور ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ایران میں ہر چیز کا ایک مرکز ہے اور وہ عظیم رہبر ولی فقیہ آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ایرانی صدر بھی خود اس رہبر کا پیروکار ہے، اور یہ اس کے لئے شرمندگی کی نہیں بلکہ عزت اور سربلندی کی بات ہے۔”
شہادت:مکتب اہل بیت ؑ کا یہ شاگرد اپنے ائمہ معصومین ؑ کی قرآنی سیرت پر چلتا ہوا ہمیشہ سعودی ظالموں کے شیطانی مقاصد کی راہ میں ایک رکاوٹ بنا رہا اور انکے مظالم کو طشت از بام ،عیاں کرکے دنیا بھر میں آل سعود کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتا رہا، یہی وجہ تھی کہ آخر کار ان سعودی شیاطین نے اپنے اموی اجداد کی سفیانی سیرت پر چلتے ہوئے مکتب اہل بیتؑ کے اس مظلوم مجاہد کی آواز ہمیشہ کیلئے خاموش کردینے کی ٹھانی اور یوں اپنے سفلی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے آیت اللہ نمر کو گرفتار کر لیا گیا،گرفتاری کےبعد 25 مارچ 2013 کے دن شیخ نمر کو آل سعود کی اُموی اورطاغوتی عدالت میں پیش کیا گیا اور15 اکتوبر 2014ء کو اس عظیم مجاہد کو موت کی سزا سنائی گئی۔
02 جنوری 2016ء کے دن کا سورج شہادتوں کے پیغام کے ساتھ طلوع ہوا اور ایک بار پھر کربلا کے وقت اور سرحدوں سے بالاتر ہونے کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلایا۔ وہ دن کہ جب کفر و شرک کے حامی بنو امیہ کے فکری وارث آل سعود کے جلادوں نے طاغوت مخالف اس عظیم حیدری سپوت کو 46 دیگر بے گناہ افراد کےساتھ تہ تیغ کر ڈالا اور اہل بیت ؑکی راہ کا یہ سچا پیروکار اپنے مولا کی سنت پر چلتے ہوئے خون میں تر چہرہ لےکر بارگاہ رب العزت میں سُرخرو ہو گیا۔
اس شہید کا خون وحی کی مقدس سرزمین پر بہہ کر اپنے معصوم پیشواوں کے خون کیساتھ جا ملا اور ہزاروں لاکھوں قطرات میں بدل کر دنیا بھر کے حریت پسندوں کی رگوں میں شامل ہو کر طاغوت کے خلاف جدوجہد کا جذبہ دو چندان کر گیا۔
عالمی اسلامی مقاومت کے پیشوا،امام خامنہ ای کا شہید نمر کی شہادت پر رد عمل:ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی حسینی خامنہ ای نے ا س مظلوم مجاہد کی شہادت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:” یقینا اس مظلوم شہید کا ناحق بہایا جانے والا خون، جلد اپنا رنگ لائے گا اور سعودی حکمرانوں کو الٰہی انتقام سے دوچار کردے گا،اس مظلوم عالم نے نہ تو عوام کو ہتھیاروں کے ساتھ تحریک چلانے کی ترغیب دلائی اور نہ ہی کسی خفیہ سازش کا اقدام کیا بلکہ اس عالم دین نے صرف سعودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دینی غیرت کی بنیاد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مظاہرہ کیا۔ یقینا ً خدا کا لطف و کرم اور اُس کی رحمت، شہید باقر النمرکےشاملِ حال ہو گی اوربلا شبہہ ان ظالموں کو انتقام ِالٰہی کاسامنا کرناپڑے گا کہ جنہوں نے اِس مظلوم عالم دین کی شہادت میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ الٰہی انتقام ہی وہ چیز ہے جوہماری تسلّی کا باعث ہے]7[۔”

1-https://bit.ly/2TopffC
2-https://bit.ly/2TopffC
3-https://bit.ly/2TopffC
4-https://bit.ly/2CJh0p2
5-https://bit.ly/2s2sE7Z
6-https://bit.ly/2TnEd5v
7-https://bit.ly/2GPp4sn