(ولی امرِمسلمینِ جہان سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے 16فروری 2015 کے خطاب کی روشنی میں مرتب کیا گیا مقالہ کہ جس میں رہبرمعظم غیرمسلم اقلیتوں سے اسلامی رواداری اورطرزِعمل پرتاکید اور اہمیت بیان کرتے ہوئے اس بارے میں اسلامی نظریہ بیان فرماتے ہیں، قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہاہے)۔

ہم نےاسلام سے سیکھا ہے کہ دوسرے ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ انصاف اورعدالت کےساتھ پیش آنا چاہیئے، یہ ہمارے لیے اسلام کاحکم ہے۔

یہ عالمی قوتیں اور انصاف اور عدالت کادعویٰ کرنےوالی حکومتیں ہیں کہ جنہیں اپنی تنگ نظر اور محدود پالیسیوں میں کسی بھی قسم کی ناانصافی اور بے عدالتی نظر نہیں آتی اور انسانی حقوق کی رعایت نہیں کرتیں ۔ جیسا کہ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کےخلاف کیا کچھ ہو رہاہے، مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈے انجام دیئے جا رہے ہیں۔

ہماری بحث یہاں پریہ نہیں ہے کہ بہت سارے ممالک میں مسلمانوں کو کیوں بنیادی آزادی میسّرنہیں ہے، ہماری بحث اِس بات پرہے کہ کیوں اِن ممالک میں مسلمانوں کی جان تک محفوظ نہیں ہے؟ مسئلہ حقیقت میں یہ ہے کہ بہت سارے یورپی ممالک میں مسلمانوں کی جان ومال بھی محفوظ نہیں ہے، بنیادی آزادی میسّرہونا تو دور کی بات ہے۔

اسلام انصاف اور عدالت پریقین رکھتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو عدل و انصاف کی تلقین کرتا ہے۔ امیرالمؤمنین علی ابنِ ابی طالبؑ عراق کے شہر الانبار پر حملے کے واقعے پرفرماتے ہیں: بَلَغَنی اَنَّ الرَّجُلَ مِنهُم لَیدخُلُ المَرأَةَ المُسلِمَةَ وَ الاُخرَی المُعاهِدَة؛

’’مجھ تک خبرپہنچی ہے کہ جن لوگوں نے اِس شہر پرحملہ کیا ہے ان میں سے بعض لوگ مسلمان اور غیرمسلمان خواتین کہ جو اسلامی حکومت کے زیرسایہ زندگی گزار رہی ہیں اِن کے گھروں میں داخل ہوئے ہیں‘‘۔ «و یأخُذُ حِجلَها»اور انہیں تنگ کرتے ہیں اور اذیت و آزار پہنچاتے ہیں، اِن کی پازیب اُن سے چھین لی گئی ہے۔ اِس کے بعدامیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ اگر ایک مسلمان اِس غم میں مربھی جائے تو مستحقِ ملامت و سرزنش نہیں ہے۔

غور کیجیئے! امیرالمؤمنینؑ جیسی شخصیت یہ فرما رہی ہے؛ آپ فرماتے ہیں کہ اگر دُشمن اورلُٹیروں کی افواج ایک غیرمسلم عورت کے گھر میں داخل ہوجائیں اور اُسے آزار و اذیت پہنچائیں یہاں تک کہ اُس کی پازیب اُس سے چھین لیں تو ایک مسلمان اِس غم میں مربھی جائے تو اُس کی ملامت و سرزنش نہیں ہونی چاہیئے۔ اسلام کی یہ نگاہ ہے۔

آپ نےکئی دفعہ سُنا ہو گا کہ مثلاًجرمنی میں نازی گروہ (ایک نسل پرست گروہ) جوکہ اِس بات پرفخربھی کرتے ہیں کہ ہم نازی ہیں اور اپنا نام ’’نیو نازی‘‘ رکھا ہواہے۔ یہ لوگ قلیل تعداد میں وہاں موجود مسلمانوں پرحملے کرتے ہیں، مسلمانوں کی مساجدپرحملہ آورہوتے ہیں اورمسلمانوں کوجان سے مار ڈالتے ہیں اور اِس واقعے کی درست طریقے سے تحقیق بھی نہیں ہوپاتی ہے۔

یا وہ عرب مسلمان جوان خاتون جو کہ چادر پہنتی ہو یا حجاب کرتی ہو اُسے، اُس کے حجاب کی وجہ سے مارپیٹ کرتے ہیں اور اُسے قتل کردیتے ہیں اورکوئی بھی اِس واقعہ پرنہ آواز اٹھاتا ہے اور نا ہی کوئی اس کے خلاف اقدام کرتا ہے،اگرکہیں مجرموں کوکوئی سزا دی بھی جائے، ہمارا نہیں خیال کہ بہت زیادہ سنجیدگی سے اِس کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا جاتا ہے، بلکہ اکثر تو کوئی قدم اُٹھایا ہی نہیں جاتا۔

دوسری جگہوں میں بھی اِسی طرح سے ہے؛ امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی بصد افسوس مسلمانوں کوایسے ہی حالات کاسامناکرناپڑتا ہے۔

اور یہی لوگ معلوم نہیں کہ کس مُنہ سے بے شرمی کی انتہا کے ساتھ،انسانی حقوق کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ اب اِن چیزوں کامقایسہ اسلامی جمہوریہ ایران میں رہنے والی اقلیتوں سے کریں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں ایسے کسی واقعے کاوجود ہی نہیں ملتا، نہ حال میں اور نا ہی ماضی میں۔ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران میں مسلمانوں کا غیرمسلمانوں پر تجاوز کا کوئی سابقہ نہیں پایاجاتا۔ یہاں تک کہ یہی انقلابی اور حزب اللّٰہی جوان کہ جن کوبہت جوشیلا اور جذباتی خیال کیا جاتاہے، انہوں نے کبھی کسی غیر مسلم پر حملہ نہیں کیا  اور ایسی کوئی مثال بھی نہیں پائی جاتی۔

رہبرِمعظم آیت اللّٰہ العظمٰی سیدعلی خامنہ ای (حفظہ اللہ) اسلام کی اِن آفاقی تعلیمات کی روشنی میں کرسمس اور دیگر مواقع پر ایران میں موجود عیسائی شہداءکے اہلِ خانہ سے ملاقات کےلیے اُن کے گھروں میں تشریف لے جاتےہیں اوراحوال پُرسی کرتے ہیں، صاحبِ خانہ بھی گرم جوشی کےساتھ استقبال کرتے ہیں اور رہبرمعظم سے بلاتکلّف گفتگو کرتے ہیں اوراپنےحالات اور واقعات سےآگاہ کردیتے ہیں۔ عملی طورپررواداری کے یہ مناظر، روحانیت اور انسان دوستی کےجذبات سے بھرپور ہوتے ہیں اوریہ مناظر، اسلام کی دکھائی جانےوالی جھوٹی، بدنما اور وحشت ناک تصویر کی بھی نفی کرتے ہوئے اسلامِ محمدیؐ کی ترجمانی کرتےہیں۔

اسلام دُشمن استعماری طاغوتی طاقتوں نے اسلام کا روشن اورخوبصورت چہرہ مسخ کرنے کے لیے دنیا میں طالبان، داعش، القاعدہ اور اس طرح کے دیگرقبیح ومکروہ چہروں والے گروہوں کودنیا میں پیش کرکے اسلام کا تعارف اس طرح سے کرنے کی کوشش کی اور مسلسل ایسی مختلف کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں لیکن الحمداللہ اسلامی انقلاب کے آفاقی نظریے کی وجہ سے تمام دشمنان کو ہربار منہ کی کھانی پڑتی ہے اور دُشمن اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہوپاتا ہے۔

آج تمام مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ باہمی بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئے اسلام کا حقیقی اور خوبصورت چہرہ دُنیا کے سامنے پیش کریں۔