جی ہاں ایسا ممکن ہے کہ 100کلومیٹر رفتار والی گاڑی کی رفتار بڑھا دی جائے اور500 یا جس حد تک ہو سکے اُس گاڑی کی رفتار بڑھا دی جائے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ گاڑی اتنی زیادہ رفتارکے لیے نہیں بنائی گئی ہے اگر اِس سے غلط استفادہ کیا جائے تو اُس ہدف تک نہیں پہنچ پائے گی کہ جس کے حصول کے لیے بنائی گئی ہے اور کسی بھی وقت بیچ راستے میں ساتھ چھوڑ جائے گی۔ اگر کوئی کہے کہ ماہِ رمضان کے تیس روزوں کے بجائے 100روزے رکھیں اور بہت ہی کم غذا استعمال کریں جیسا کہ بعض جادوگر ایسے کام انجام دیتے اور کچھ نتائج بھی حاصل کر لیتے ہیں اور مختلف اطلاعات اور روح پر ایک حد تک تسلط بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہ ایک مشین جسے 50 سال کام کرنا چاہیئے لیکن اُس سے فقط دس دن استفادہ کیا جائے کیونکہ دنیوی زندگی آخرت کی زندگی کی نسبت بہت ہی کوتاہ و محدود ہے بالکل بھی قابلِ مقایسہ نہیں ہے کیونکہ آخرت کی زندگی بے نہایت و لامحدود ہے اور دنیوی زندگی اگر بہت ہی زیادہ ہوئی تو 100 سال یا اِس سے کچھ زیادہ، ممکن ہے کچھ مدت اِس دنیوی زندگی سے استفادہ کیا جائے لیکن ابدی زندگی خراب ہوجائے گی۔

ایسی روحی سرگرمیاں اور انجام دی جاسکتی ہیں اور محدود قوت بھی حاصل کی جاسکتی ہے ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یا جھوٹ ہے لیکن ایسی قوت محدود اور وقتی ہیں اور جلد ہی نابود ہو جانے والی چیزیں ہیں ایسے لوگوں کو کہا جائے گا کہ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَ اسْتَمْتَعْتُم بِهَا زحمت اُٹھائی اور اُس کا صلہ و مزدوری بھی دنیا میں ہی لے چکے۔

اور وہ مشہور واقعہ کہ ایک روز امام جعفرصادق علیہ السلام مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو آپؑ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کا مجمع ایک شخص کے اردگرد لگا ہوا ہے۔ امام علیہ السلام پوچھتے ہیں کہ یہاں پرکیا ہورہاہے؟ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ہے جو عجیب و غریب کام انجام دے رہا ہے اور لوگ اُس کے کمالات دیکھ رہے ہیں۔ امام علیہ السلام آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کام انجام دے رہاہے۔ آپ علیہ السلام دیکھتے ہیں کہ جس کی مٹھی میں بھی جو چیز ہے وہ بتا دیتا ہے کہ اُس کی مٹھی میں کیا چیز ہے۔

آپ علیہ السلام اپنی مٹھی کو بند کرتے ہیں اور اُس سے پوچھتے ہیں کہ میری مٹھی میں کیاہے؟ وہ شخص تھوڑی دیر سوچ کر آپ علیہ السلام کے چہرے مبارک کی طرف نگاہ کرنے لگتاہے۔ امام پوچھتے ہیں کہ کیوں نہیں بتارہے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم؟ وہ شخص کہتاہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کی مٹھی میں کیا ہے لیکن مجھے تعجب اِس بات پرہے کہ جو چیز آپؑ کی مٹھی میں ہے وہ آپ نے کیسے حاصل کی؟ آپ علیہ السلام پوچھتے ہیں کہ کیا دیکھ رہے ہو؟ وہ کہتاہے کہ جو بھی چیز اِس عَالَم میں ہے اپنی جگہ پر ہے، ایک جزیرے میں ایک پرندے نے دو انڈے دئے تھے اُن میں سے ایک موجود نہیں ہے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ وہ ایک انڈہ یقیناً آپ کی مٹھی میں ہے اورمجھے تعجب اِس بات پر ہے کہ آپ کا اُس جزیرے سے کیا تعلق ہے اور کس طرح سے اُس انڈے کو وہاں سے اپنی مٹھی پر لے آئے۔

امام علیہ السلام اپنی مٹھی کھولتے ہیں تولوگ دیکھتے ہیں کہ اُس شخص کی بات درست ہے۔ امام علیہ السلام اُس شخص سے پوچھتے ہیں کہ یہ طاقت کیسے حاصل کی؟ وہ شخص کہتاہے کہ میں نے اِس بات کا ارادہ کر لیا تھا کہ میں اپنے دِل کی مخالفت کروں گا جو دل کہے اُس کے مخالف کام انجام دوں گا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کیا تمہارا دل چاہتاہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ؟ وہ کہتاہے کہ نہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کیاتم نے ارادہ نہیں کیا تھا جو بھی تمہارادل نہیں چاہے گا اُس پرعمل کروں گے۔ وہ شخص لاجواب ہوجاتاہے اورمسلمان ہوجاتاہے۔ مسلمان ہونے کے بعد اب وہ عجیب و غریب حیرت انگیزکام نہیں دیکھ پاتاہے۔ وہ کہتاہے یہ میں نے کیاکردیا! افسوس کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ دینِ حق کو قبول کیا اور خداپرست بن گئے ہیں تو اب جو کمالات ہاتھ میں تھے اُن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ امام علیہ السلام اُس سے فرماتے ہیں کہ اب تک جو بھی زحمت و مشقت دُنیا میں اُٹھا رہے تھے اُس کاصلہ خدا کی طرف سے دُنیا میں ہی تمہیں مل رہا تھا اور اب سے جو بھی زحمت و مشقت اُٹھاؤ گے تمہاری آخرت کے لیے ذخیرہ ہوتا رہے گا اور ابدی صلہ و نتیجہ ملے گا۔ کیا اِس بات پر راضی ہو؟ وہ شخص کہتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو میں اِس پر راضی ہوں۔

پس اِس واقعے سے یہاں پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خداوندِ متعال نے انسان کے اندر ایسی استعداد و صلاحیت رکھی ہے کہ ممکن ہے کوئی ریاضت یا ورزش انجام دے اور اُس سے کوئی نتیجہ بھی حاصل کر لے۔ لیکن خدا نے انسان کو اِس لیے نہیں خلق فرمایا ہے کہ انسان یہ بتاسکے کہ کس کی مٹھی میں کیا چیز ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔؟