اَئمہ معصومین علیہم السلام کی 250 سالہ زندگی کی تمام مدت ،حکومت کو حقیقی حاکموں کی طرف واپس پلٹانے کی کوششوں میں گزری لیکن اُس زمانے کی عوام میں آمادگی کا فقدان اورشعور و بصیرت کے فقدان کے سبب یہ کام عملی جامہ نہیں پہن سکا۔

میدانِ غدیر میں درحقیقت ایک نظام کا اعلان ہوا تھا ایک ایسا نظام جو انسانیت کی حقیقی وپاکیزہ حیات کا ضامن ہو۔ ایک ایسا نظام جو انسانی معاشرے کی کامیابی کا ضامن ہو ۔ ایک ایسا نظام جو انسان کی الہٰی فطرت کی بنیادوں پر قائم ہو۔خلاصہ یہ کہ ایک ایسا نظام ہو جو وحی سے متصل ہو۔

اِسی الٰہی نظام کی تشکیل کے لیے ہی تمام انبیاءؑ نے جدوجہد کی اور اَئمہ معصومین علیہ السلام نے اپنی تمام زندگی اِسی الہٰی نظام کی تشکیل کے لیے وقف کی، اِسی راستے میں جدوجہد کی اور صعوبتیں اور مشکلات برداشت کیں اور نتیجتاً شہادت کی منزل پر فائز ہوئے۔ اَئمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات اور عملی سیرت تمام اُن کے پیروکاروں اور اُن سے محبت کا دعویٰ کرنے و الوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ اَئمہ معصومین علیہم السلام کے سچے پیروکار ہونے کا دعویٰ اور اُن سے حقیقی محبت کا دعویٰ اُن کی سیرت پر عمل کئے بغیر سچا دعویٰ نہیں کہا جاسکتا۔ اَئمہ معصومین علیہم السلام کی جدوجہد کو آگے بڑھانا اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل یعنی ایک الہٰی نظام کی تشکیل کے لیے جدوجہد اور اُس نظام کی حفاظت تمام مسلمانوں اور بالخصوص مؤمنین پر واجب ہے نہ فقط واجب ہے بلکہ واجب اعمال میں سب سے زیادہ واجب ہے ۔ ہم نے اِس مختصر مقالے میں اِس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کو شش کی ہے۔

اسلامی نظام کی حفاظت اہم ترین فریضہ کیوں ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے لے کر اب تک آخری الہٰی دین کے عنوان سے جس دین نے تمام دنیا کو متاثر کیا، اُس دین کو چودہ صدیوں سے زیادہ گزر گئے ہیں۔ اِس پوری مدّت میں مختلف مفکروں، دانشوروں اور مختلف فکری مکاتب کی طرف سے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس جاہلیت کے زمانے کے جزیرۃ العرب میں بعثت کا ہدف اور اُس کی وجوہات کے بارے میں بے شمار نظریات بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ بعثت کے ہدف کو الہٰی راستے میں انسان سازی (انسانی تربیت) اور انسان کی بلندی سے تعبیر کیا جانا چاہیئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا: «إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ»۔

انسان بنانے کا کارخانہ
ہمیں سیرتِ نبویؐ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی روش انسان کے نفس کو بلندی عطا کرنے کے لیے اور نفسانی آلودگیوں کو دور کرنے کے لیے، اسلامی حکومت کا قیام اور اُس کے ہمراہ اسلامی معاشرے کاقیام تھا۔
در حقیقت اسلامی حکومت کے سائے میں ہی شیطانی اقدار، معاشرے کے آداب و رسوم سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور انسانی زندگی میں الہٰی احکام نافذ ہوجاتے ہیں۔ وہ الہٰی احکام جو معاشرے کی سلامتی اور انصاف کے ضامن ہوتے ہیں اور اُن کی مداخلت میں رکاوٹ بن جاتے ہیں جو کہ خاص طبقات اور افراد کے مفادات کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں۔ پیغمبرِ اکرمؐ کی مکّے سے مدینے ہجرت اور اُن شہروں میں اسلامی حکومت قائم کرنا اِسی طور طریقے کی بنیاد پر تھا۔

ولایت اور تکمیل و ختم نبوّت
رسولِ خداؐ کی سالوں کی جدوجہد کے بعد، اِس تازہ کاشت کیئے ہوئے پودے کی اُسی طرح سے حفاظت اور اُسے آفات و بلاؤں سے دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایک ایسے حاکم کو پیغمبرؐ کا جانشین ہونا چاہیئے تھا جو نہ فقط پیغمبرؐ کی سیرت اور سنت سے دُور نہ ہو بلکہ اُن کے راستے کو تکمیل کرنے والا اور آخر تک پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اِسی خدائی فرمان پر مشتمل دلیل کے سبب، حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبرؐ کا جانشین اور عوام کے دین و دُنیا کا حاکم ہونا چاہیئے تھا۔ رہبر معظم کے بقول اگر یہ کام عملی جامہ پہن لیتا تو ’’بغیر کسی شک کے (کہاجاسکتاہے کہ) انسانی تاریخ کا راستہ بدل جاتا اور آج انسان کی طویل تاریخ میں ہمارا مقام (موجودہ مقام سے) بہت آگے ہوتا‘‘۔

اِس کی دلیل بھی یہی ہے کہ طبیعی خصوصیت اور قانون کی بنیاد پر حقیقی اسلامی معاشرہ مرتبط ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ تسلسل جاری رہتا ہے ’’اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا معاشرہ پچاس سال تک قائم رہتا، وہی قیادت اپنی جگہ پر باقی رہتی، یا پیغمبر اکرمؐ کے بعد مولا علیؑ وہی قیادت کہ جسے پیغمبرِ اکرمؐ نے معین فرمایا تھا، پیغمبرؐ کی جگہ پر جلوہ افروز ہوتی (تو) آپ مطمئن ہوجائیں کہ پچاس سال کے بعد وہ تمام منافقین حقیقی مؤمنین میں تبدیل ہوجاتے۔۔۔ وہ تمام لوگ کہ جن کی روح ایمان سے آشنا نہ تھی وہ بھی خدا اور ایمان سے آشنا ہوجاتے۔‘‘ [1]مگر افسوس کہ یہ کام جس طرح سے انجام پانا چاہیئے تھا انجام نہیں پایا اور اِس کا نتیجہ جیساکہ ’’آج ہم اور ہمارا انسانی معاشرہ، ابتدائی انسانی ضروریات کے زمانے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ دنیا میں بھوک موجود ہے، طبقاتی ماحول موجود ہے، کم بھی نہیں ہے بلکہ پھیلا ہوا ہے، ایک جگہ سے بھی تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام جگہوں پر پایا جاتا ہے۔ زور زبردستی موجود ہے، انسانوں کی انسانوں پر ناحق ولایت اور حکومت موجود ہے۔ وہی چیزیں جو کہ چار ہزار سال پہلے، دو ہزار سال پہلے مختلف شکلوں میں پائی جاتی تھیں، آج بھی انسان ان ہی چیزوں میں مبتلا ہے؛ فقط طور طریقے بدل گئے ہیں۔ غدیر ایک ایسے طریقہ کار اور تحریک کا آغاز تھا کہ جو انسان کو اِس مرحلے سے خارج کرسکتا تھا اور ایک دوسرے مرحلے میں داخل کرسکتا تھا۔[2]

غدیر کا پیغام، اسلامی نظام کی حفاظت
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی بعثت کے چودہ سوسال بعد امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کی پاکیزہ ذرّیت میں سے ایک مرد نے اِس بار ایران نامی ملک میں اسلامی حکومت کے احیاء کے لیے قیام کیا اور دوبارہ سے ، اسلام کی بنیاد پر اور الٰہی فرامین کی مرکزیت و محوریت میں ایک حکومت تشکیل پائی۔ ایسا انقلاب کہ جس کو عصرِ حاضر کا اہم ترین واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔ در حقیقت امام خمینیؒ کا سب سے بڑا کام اسلامی حکومت کو دنیا میں دوبارہ سے قائم کرنا تھا لیکن یہاں پر کام ختم نہیں ہوتا ہے۔ در حقیقت اگر چہ امام خمینیؒ کا یہ عظیم کام یعنی دینی اور سیاسی عقل پسندی کی بنیادوں پر سیاسی نظام کو تشکیل دینا تھا لیکن ہم نے ابھی انسان کی تربیت کرنے والی اسلامی حکومت اور معاشرے تک پہنچنے کے اِس سفر کا نصف راستہ طے کیا ہے۔

’’ہم اسلامی انقلاب یعنی ایک انقلابی حرکت کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں (اِس کے بعد) اِسی بنیاد پر ایک اسلامی نظام تشکیل دینے میں بھی کامیاب ہوگئے، یہاں تک توفیق حاصل ہوئی جو کہ بہت اہم بھی ہے لیکن اِس کے بعد کا (مرحلہ) ایک اسلامی حکومت تشکیل دینا ہے یعنی ملک کے لیے اسلامی منیجمنٹ تشکیل دینا، ہم اب بھی اِس معاملے میں ہدف اور مقصد سے بہت فاصلے پر کھڑے ہیں‘‘۔[3]

غدیر ایک سفر کا آغاز تھا جو اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام قائم ہونے کے ساتھ آگے بڑھا۔ایک ایسا راستہ جو بعد والے مرحلے میں اسلامی حکومت اور معاشرے کی تشکیل پر تمام ہونا چاہیئے تھا۔ اِسی دلیل کی بنیاد پر اس کی حفاظت تمام دینی فرائض اور احکام کے درمیان واجب اور ضروری ہے امام خمینیؒ اسلامی نظام کی حفاظت کو اہم ترین واجب بیان فرماتے ہیں تا کہ ہماری توجہ کو دوبارہ سے اسلامی حکومت کے قیام کی تاریخی اہمیت، انسانی تربیت اور دنیا کے تمدن کے سلسلے میں اِسلامی حکومت کے کردار کی طرف مبذول کروائیں۔ اسلامی حکومت اور معاشرے تک رسائی کے لیے نظام کی حفاظت واحد راستہ ہے، ایک ایسا راستہ جو عوام کی دونوں جہاں (یعنی دنیا و آخرت) کی سعادت کا ضامن ہے۔

[1] ۔(رہبر معظّم کے خطاب سے اقتباس 11 اکتوبر 1974)
[2]۔ (رہبر معظّم کے خطاب سے اقتباس 19 جنوری 2006)
[3]۔ (رہبر معظّم کے خطاب سے اقتباس 28 اگست 2017)