حقیقی اسلام اور امریکی اسلام کی اصطلاحات عصر حاضر میں امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے پیش فرمائیں۔ایک وہ اسلام ہے کہ جو حکمرانوں کے ظلم وجور اوراُن کے تمام غیر اسلامی اورغیر انسانی کاموں کی توجیہ کرنے کے لیے بنایا گیاہے تاکہ ظالم وجابر طاقتیں آسانی کے ساتھ اورخود ساختہ اسلام کے سائے تلے تمام جرائم، انجام دیتی رہیں اوراپنی نفسانی خواہشات ،ہوس رانی کے لیے اِس خود ساختہ اسلام کو استعمال کرتی رہیں ،امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایسے اسلام کو امریکی اسلام کا نام دیا ہے۔تاکہ اِس مصنوعی اسلام کے نام سے عوام الناس فریب نہ کھائیں بلکہ عقل و شعور اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں حقیقی اسلام یعنی اسلام محمدیؐ کو پہچان سکیں۔

اِس مقالے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اسلام محمدیؐ کے جو مختلف پہلوؤں کوبیان فرمایا ہے اُن پر روشنی ڈالی جائے اور اسلام ناب محمدیؐ یعنی حقیقی اسلام اور انحرافی اسلام یعنی امریکی اسلام کی تعریف بیان کی جائے اوراِن دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی جائے اوراِس کے بعد اجمالی طور پر اسلام محمدیؐ کے چارچوب وحدود پر روشنی ڈالی جائے ۔

اَئمہ معصومین علیہم السلام کے بعد بغیر کسی شک وشبہے کے کہا جاسکتا ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ کا شمارسب سے بڑے دین اسلام کا احیاء کرنے والوں میں سےہوتاہے۔اِس عظیم الشان اسلامی انقلاب کوصدرِ اسلام اوربالخصوص امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان انقلابی تحریک کا ایک کامیا ب نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے یعنی انقلابِ اسلامی درحقیقت امام حسین علیہ السلام کے قیام اوردیگر اَئمہ معصومین علیہم السلام کی جدوجہد کا تسلسل ہے۔

اِس لحاظ سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کا دین اسلام کا احیاء کرنا فقط اسلام کے اعتقادی اور فکری پہلو میں خلاصہ نہیں ہوتا بلکہ آپ نے اعتقادی اورفکری پہلو کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کےعملی پہلوؤں کو بھی زندہ کیا۔درحقیقت امام خمینیؒ کی شخصیت اعتقادی و فکری مسائل کے علاوہ عملی پہلوؤں کے لحاظ سے بھی جامعیت کی حامل شخصیت تھی۔

امام خمینیؒ فقط ایک برجستہ فقیہ ہی نہیں تھے کہ جنہوں نے فقط اسلام کے فقہی پہلوؤں کو زندہ کیا ہو،اِسی طرح آپ فقط ایک متکلم اورفلاسفر بھی نہیں تھے کہ جس نے دین کے فقط اعتقادی اورکائنات شناسی کے پہلوؤں کو زندہ کیا ہو،اِسی طرح نہ آپ فقط ایک مفسرِ قرآن یا محدث بھی نہیں تھے کہ جس نے فقط قرآن شناسی اور سنت شناسی کے پہلوؤں کو زندگی بخشی ہو،اِسی طرح آپ نہ فقط ایک برجستہ عرفانی اورروحانی شخصیت تھے کہ جس نے فقط اسلام کے روحانی اور معنوی پہلوؤں کو زندگی عطا کی ہو،اور نہ ہی آپ فقط ایک سیاسی عَالِم یا قانون دان تھے کہ جس نے فقط دین کے سیاسی اورقانونی پہلوؤں کو دنیاکے سامنے پیش کئے ہو،اِسی طرح آپ عملی پہلوؤں کے لحاظ سے نہ فقط ایک عابد تھے کہ جس نے دین کے فقط عبادتی پہلوؤں کو بیان کیا ہو،اورنہ ہی آپ فقط ایک حاکم تھے کہ جس نے فقط اسلامی حکومت کے بارے میں گفتگو کی ہو،اور نہ ہی آپ فقط ایک معلمِ اخلاق تھے کہ جس نے فقط دینی اخلاق کے پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہو، اورنہ ہی آپ فقط اور فقط ایک عارف تھے کہ جس نے دینی سیر وسلوک کو اہلِ سیرو سلوک تک پہنچایا ہو،اور نہ ہی آپ فقط ایک شریعت بیان کرنے والے تھے کہ جس نے واجبات اور نوافل کی پابندی کی بات کی ہو، اِسی طرح نہ آپ فقط ایک زاہد تھے کہ جس نے اسلامی زُہد ہمارے سامنے پیش کیا ہو،اور نہ ہی آپ فقط ایک انقلابی مبارزہ کرنے والی شخصیت تھے کہ جس نے فقط دشمنوں سے مقابلہ ،ڈٹ جانا ،ہجرت ا ور قید وبند اور قربانیاں دینا سکھایا ہو۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ علم و عمل کے میدان میں ایک یگانہ روزگار شخصیت تھے۔آپ ایک برجستہ فقیہ بھی تھے، اورایک زبردست متکلم بھی تھے، ایک بہت بڑے فلاسفر بھی تھے،ایک بے مثال مفسر ،قرآن شناس اور سنت شناس اورایک عظیم محدث بھی تھے ، آپ ایک تاریخ دان اورایک باہوش سیاست شناس،عوام شناس اورایک عظیم معاشرہ شناس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عالِم دین اورممتازروحانی شخصیت کے بھی حامل تھے۔ اِس لحاظ سے اِس بات کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ آپ کی شخصیت ایک بے مثال شخصیت تھی۔ بعض بزرگان کے بقول امام خمینی جیسی شخصیت ہزار سال گزرنے کے بعدبھی شاید پیدا نہ ہو[1]۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
آپ کے صالح فرزند سید احمد خمینی فرماتے ہیں کہ:’’وہ زمانے کے بدن میں خدا کی روح تھے اور روحِ خدا جاودانہ(ہمیشہ رہنے والی) ہے‘‘۔

آپ خورشید کی مانندتاابدانقلاب اسلامی پر سایہ فگن رہتے ہوئے اپنے نور سے پوری دنیا کو منور کرتے رہیں گے اور ہدایت کا وظیفہ انجام دیتے رہیں گے۔اِ سی لیے آپ اسلام کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ، کج فکری ،انحراف ،جمود،ناقص اسلام کی نشاندہی،ملاوٹ شدہ اسلام سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔طاغوتی ،استعماری اور ظالم وجابر عَالَمی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ ومبارزہ کے ساتھ ساتھ ، خرافات، تحجر گرایی(تنگ نظری و جمود)، تقدس مآبی(مقدس بن کر بیٹھے رہنا)، ملاوٹ اور انحراف کو بھی بیان فرماتے ہیں اور اپنے خطوط ، پیغامات کے ذریعے ہمیشہ اِن مسائل کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرتے ہیں اور حقیقی محمدیؐ اسلام کے مختلف پہلوؤں کو بھی بیان فرماتے ہیں۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ ،علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے چہلم کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں:’’ آج مشرقی و مغربی استکبار جیسا کہ اسلامی دنیا کے سامنے مستقیم دوو بدو آنے سے عاجز آچکا ہے،دینی اورسیاسی شخصیات کو دہشت گردی کے ذریعے راستے سے ہٹانے کا راستہ ایک طرف اورامریکی اسلام کے کلچر کا نفوذاوروسعت دوسری طرف سے آزمارہے ہیں۔

اے کاش !تمام دنیا پر تجاوز کرنے والے،مثلاًسوویت یونین (کی طرح) فاتح پرورمسلمان ملک افغانستان پر اعلانیہ دوبدو دست اندازی کرتے تاکہ مسلمان، غاصبوں کی جھوٹی طاقت اور اُن کے بھرم کو تہس نہس کرتے،لیکن امریکی اسلام سے مقابلے کےراستے میں خاص پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے کہ جس کے تمام پہلوؤں کو پابرہنہ(محروم) مسلمانوں کے لیے واضح کرنا چاہیئے بدقسمتی سے ابھی تک بہت ساری اسلامی اقوام کے سامنےامریکی اسلام اور محمدیؐ خالص اسلام اور پا برہنہ اورمحروم لوگوں کا اسلام اور جمود کا شکار مقدس نماؤں ،خدا ناشناس سرمایہ داروں اورآرام طلب بے حس لوگوں کے اسلام کی سرحدیں مکمل طور پر معیّن نہیں ہوئی ہیں۔ اور اِس حقیقت کو واضح کرناکہ ایک مکتب میں دو متضاد تفکر(کا پایا جانا) ممکن نہیں ہے،سیاسی واجبات میں بہت ہی زیادہ اہم ہے اگر یہ کام دینی مدارس کے توسط سے انجام دیا جاتا تو بہت زیادہ احتمال تھا کہ ہمارے عزیز سیدعارف حسینی ہمارے درمیان ہوتے‘‘[2]۔

آپ فرماتے ہیں کہ :’’ تمام علماء کی ذمہ داری ہے کہ اِن دو تفکر ات کو واضح کر کے اسلامِ عزیزکو شرق وغرب(کی طاقتوں) کے ہمنواؤں سے نجات دیں‘‘[3]۔
آپ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ اِن شاء اللہ آپ اپنی توانائی اور طاقت کے مطابق غیر واضح اورنامعلوم نکات کو ایران اور اسلامی دُنیا کی باشرف عوام کے لیےواضح کریں اور اسلامِ نابِ محمدیؐ کی حدود کو معین کردینا(درحقیقت) مغربی سرمایہ داری اور متجاوزکمیونزم کے خلاف مقدس اور انقلابی قہر، غضب اوردُشمنی ہے۔اور ریاکاری،حیلہ اورفریب سے مقابلے کا راستہ بھی عوام کوبالخصوص ہمارےدلاور جوانوں کو دکھلانا چاہیئے[4]۔

حوالہ جات:
1ـ بنیان مرصوص ـ امام خمینی ، آیت الله جوادی آملی ص 200، قم، چاپ اول.
2ـ صحیفہ نور، ج 21 ص 8، چاپ اول.
3ـ ایضاً
4ـ ایضاًص 113