شہید مصطفیٰ چمران نے زندگی میں نورِمعرفت کے ساتھ اورخداسے نزدیک ہونے کی امید لیئے قدم رکھااوراس کی راہ میں جہاد کے لئے کھڑے ہو کر اپنی جان بھی فداکردی،وہ سرفرازی کے ساتھ شہیدہوااورحق تک پہنچ گیا۔
کمال تو تب ہے کہ انسان سیاسی شوروغل اورشیطانی خودنمائی کے بغیرخداکی راہ میں جہادکے لئے اٹھ کھڑا ہواوراپنے کوہَواوہَوس کےلئے نہیں بلکہ نیک مقصد کے لئے فداکردے !مردان خدا کا یہی تو کمال ہے ! وہ سرخرو ہوکرخدا کی بارگاہ میں گیا ہے۔ اسکی روح شاد اور اسکی یاد زندہ رہے۔[1]
پیدائش و تعلیم :
شہید ڈاکٹر مصطفی چمران 1932ء میں شہر مقدس ِقم میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جس گھر میں پرورش پائی اگرچہ اس میں غربت اور سختیاں تھیں لیکن گھر کا ماحول مذہبی تھا،والدین نماز ِ پنجگانہ مسجد میں ادا کرتے تھے؛والدہ دعاؤں کی عاشق تھی اور والد حلال کمائی اور حلال غذا کےسخت پابند تھے۔

آپ نےاپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز تہران میں واقع انتصاریہ سکول سے کیا اور پھر دارالفنون اور البرز جیسے مدارس میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا ۔ اس کے بعد تہران یونیورسٹی کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور سنہ 1957 میں الیکٹرومکینیک کے شعبہ میں اپنی ڈگری مکمل کی ۔ پھر ایک سال تک اسی ڈپارٹمنٹ میں انہوں نے تدریس بھی کی ۔[2]
شخصی معلومات
نام :مصطفیٰ چمران
والد کا نام : حسن چمران
تاریخِ پیدائش: 1932
جائے پیدائش: قم
تاریخِ شہادت:21 جون 1981
جائے شہادت: دہلاویہ(جنوبِ ایران)
امریکہ کا سفر:
انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران ہر کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور سنہ 1958 میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے اسکالرشپ پر امریکہ تشریف لے گئے اور وہاں دنیا کےمعروف ترین دانشمندوں کی موجودگی میں تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دیں ۔ انہوں نے امریکہ کی مشہور یونیورسٹیوں کیلی فورنیا اور برکلے میں اعلیٰ علمی ذوق کے حامل اساتذہ کی زیر نگرانی الیکٹرانک اور پلازما فزیکس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔

انہوں نے امریکہ میں اپنے قیام کے دوران اپنے بعض دوسرے دوستوں کی مدد سے پہلی بار اسلامک اسٹوڈنٹس سوسائٹی ( انجمن دانشجویان اسلامی ) کی بنیاد رکھی اور اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے انتھک جدوجہد کی ۔ امریکہ میں موجود ایرانی اسٹوڈنٹ کمیونٹی میں ان کا شمار اس سوسائٹی کے سرگرم رکن کی حیثیت سے ہوتا تھا ۔ ان کو اپنی سرگرمیوں کی سزا یہ ملی کہ ایران میں موجود شاہ حکومت نے ان کا تعلیمی وظیفہ روک دیا۔[3]
معاشرتی سرگرمیاں:
جب آپ کی عمر 15 سال ہوئی تو مسجد ِ ہدایت میں مرحوم آیت اللہ طالقانی کے درسِ تفسیر قرآن اور استاد شہید مرتضیٰ مطہری کے درس منطق اور فلسفے کی کلاسوں میں شرکت کیا کرتے تھے ۔

شہید چمران نے ایران میں اپنی تعلیم کے دوران شاہی حکومت کے خلاف انقلاب میں بھر پور حصہ لیا ،شاہ کے خلاف جاری تحریک کے لئے مخفیانہ طور پر پمفیلٹ اور پوسٹر بھی تقسیم کیئے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ لبنان چلے گئے۔اور امام موسیٰ صدر کے ساتھ مل کر صہیونی حکومت کے خلاف جدوجہد شروع کی اور لبنان کے محروم طبقات اور فلسطینیوں کی امداد کے لئے ’’تحریکِ محرومین ‘‘ کی بنیاد رکھی۔[4]
لبنان میں:
شہید ڈاکٹر مصطفی ٰچمران نےجبل عامل لبنان کے یتیم ، محروم اور مستضعف بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ’’جبل عامل ٹیکنیکل اسکول‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔جن بچوں کے والدین، اسرائیلی حملوں سے شہید ہو گئے تھے وہ یتیم 24 گھنٹے اسی اسکول میں ہی رہتے اور اسکول کی تمام سہولیات ان کو میسر تھیں۔یہاں بچوں کوٹیکنیکل موضوعات بڑھئی، لوہاری، ویلڈنگ، الیکٹرک،ایگریکلچرل مشین ٹھیک کرنے کے فنون سکھائے جاتے تھے، 4 سال بعد جب یہ بچے اس اسکول سے فارغ ہوتے تھے تو آرام سے اپنے گھر کا خرچہ چلا سکتے تھے۔آپ نے ہزاروں نوجوانوں کی معاشی، دینی ،عسکری ،اداری و تنظیمی تربیت کی اور جنوبی لبنان کے مستقبل کے لئے مضبوط بنیاد ڈالی۔
اسی اسکول کے اسٹوڈنٹ نے ایران کے شہر نیشا بور میں طلباء کے ایک اجتماع میں چمران کے بارے میں کہا کہ :
’’چمران اس مدرسے میں اسلامی انسان کی ایک عملی تصویر تھے او رات کو سب سے آخر میں سوتے اور صبح سب سے پہلے بیدار ہوا کرتے تھے۔ وہ اس مدرسے کے شاگردوں کے برتن بھی خود دھوتے تھے اور 24 گھنٹے سخت اور دشوار حالت میں انہی یتیم اور محروم طلباء کے ساتھ رہتے تھےاور آج لبنان میں جو حزب اللہ کے صف ِاوّل کے مجاہدین نظر آتے ہیں وہ سب 20 سال پہلے شہید چمران کی تربیت کا عملی ثمرہ ہیں۔ ‘‘ [5]
ایران واپسی :
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد چمران 23 سال بعد ایران واپس آئے تو آپ کا پہلا کام یہ تھا کہ آپ نےسپاہ ِ پاسداران کے جوانوں کوعسکری ٹریننگ دی اور سپاہِ پاسداران کی عسکری تربیتی کمیٹی کےعہدیداروں کے رکن کےطور پر شامل ہو گئے۔1979 میں انقلاب اسلامی کی شوریٰ اور امام خمینی ؒ کے حکم سے وزیرِ دفاع کے عہدے پر فائز ہوئے اور فوج کے مختلف شعبہ جات کی اصلاح میں مشغول ہو گئے۔ آپ انقلاب اسلامی کی شوریٰ کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 1 ملین سے زائد ووٹوں سے تہران کے نمائندے منتخب ہوئے اور 1980 میں آپ کو امام خمینی ؒ کے حکم پر ولیِ فقیہ کے دفاع کی شورائے عالی کے مشاور اور نمائندے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ایران عراق جنگ کے شروع میں آپ چند سپاہیوں کے ساتھ کردستان میں جنگ میں مصروف رہے اور بعد میں عوامی سپاہیوں کے دستوں کو منظم کرنے کے لئے اہواز چلے گئے۔[6]
شہادت :
ڈاکٹرچمران کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ایک رات مصطفٰی نے مجھ سے کہا:
‘‘میں کل شہیدہوجاؤں گا۔’’
میں سمجھی مذاق کررہے ہیں؛ میں نے کہا:کیاشہادت آپ کے ہاتھ میں ہے جوآپ اتنےیقین کے ساتھ کہہ رہےہیں ؟
کہا:’’نہیں مگرمیں نے خداسے شہادت کی دعاکی ہے اورمیں جانتاہوں کہ خدا میری اس آرزوکوپوراکرے گا۔لیکن میں یہ بھی چاہتاہوں کہ تم راضی رہو۔میں کل یہاں سے چلاجاؤں گا،میں چاہتاہوں کہ تمہاری مکمل رضایت بھی میرے ساتھ رہے۔ ‘‘

انہوں نے آخرکار مجھے راضی کرہی لیامگرمجھے خودبھی پتہ نہیں کہ میں نے کیسے رضایت دے دی۔صبح جب مصطفٰی محاذکی طرف جانے لگے تومیں نے ہمیشہ کی طرح ان کی وردی اوراسلحہ تیارکرکے رکھااورراستے کے لئے پانی بھی دے دیا۔
آپ کی اہلیہ کابیان ہے :
ٹھیک ظہرکے وقت فون کی گھنٹی بجی اورمجھےخبرملی کہ ڈاکٹرچمران زخمی ہوگئے ہیں ۔آپ کے ساتھی آکر مجھے اسپتال لے گئے میں جب اسپتال کےصحن میں داخل ہوئی تو سیدھا مردہ خانہ کی طرف بڑھی اس لئے کہ میں جانتی تھی کہ مصطفیٰ زخمی نہیں، بلکہ شہید ہوگئے ہیں جب میری نظر مصطفٰی کے جسم پرپڑی توزبان سےبےساختہ نکلا:
اللھم تقبل مناھذاالقربان
(خدایاہماری اس قربانی کوقبول فرما)
غادہ چمران[7]
امام خمینی (رہ) کا شہید چمران کی شہادت پر تعزیتی بیان سے اقتباس:
بسم اللہ الراحمٰن الرحیم
انّا للہ و انّا الیہ راجعون
میں اسلام کے مایہ نازکمانڈر،بیدارمجاہد،اورراہ کمال کے ساتھ عہدنبھانے والے ڈاکٹرمصطفٰی چمران کی انسان سازشہادت کی مناسبت سے حضرت ولی عصر(ارواحنافداہ)کی خدمت میں تسلیت ومبارک باد پیش کرتاہوں۔تسلیت اس لحاظ سے کہ ہماری شہیدپرورقوم نے ایک ایسے سپاہی کوکھودیاہےکہ جس نے لبنان اورایران میں حق کی باطل کےساتھ معرکہ آرائی میں ایک انقلاب برپاکردیاتھا۔اسلام ِعزیزاورحق کی باطل پرکامیابی اس کانصب العین تھاوہ پرہیزکارسپاہی اورذمہ داراستاد تھا اور ہمارے اسلامی ملک کواس کی اوراس جیسوں کی اشدضرورت تھی۔ مبارک باد اس لحاظ سے کہ عظیم اسلام ،مستضعف اقوام اور عوام کو ایسے فرزند پیش کرتارہتاہے اوراپنے دامنِ تربیت میں ان جیسے کمانڈروں کو پروان چڑھاتاہے؛کیاایسا نہیں کہ زندگی کادوسرا نام عقیدہ اور اُس عقیدے کی راہ میں جہادہے؟

چمرانِ عزیزنے پاک وخالص عقیدے کےساتھ سیاسی دستوں اور پارٹیوں سے غیروابستہ رہ کر،عظیم خدائی ہدف پراعتقادرکھتے ہوئے ابتدائےزندگی سے ہی خداکی راہ میں جہادشروع کردیاتھااورزندگی کااختتام بھی اسی پرکیا۔

میں اس نقصان کی ایران اور لبنان کی شریف قوم ، بلکہ ساری مسلم اقوام، مسلح دستوں ، راہ حق کے مجاہدوں ، اس عزیز مجاہد کے گھروالوں اور بھائی کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اُن کےلئے رحمت اوراُن کے اہلِ خانہ کےلئے صبر و اجر کا طلبکار ہوں۔

روح اللہ الموسوی الخمینی[8]
[1] امام خمینی ؒ
[2] https://bit.ly/2WQaGDv
[3] https://bit.ly/2WQaGDv
[4] https://bit.ly/2WQaGDv
[5] مثالی لوگ (7) ص55 تا 58
[6] https://bit.ly/2WQaGDv
[7] مثالی لوگ (7) ص173 تا 175
[8] مثالی لوگ (7) ص177 تا 179