آلِ سعود، یعنی آلِ یہود
ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے (سورۃ المائدۃ۔51)

آل سعود آل یہود کا نعرہ فقط ایک خالی خولی نعرہ نہیں ہے اِس کے پیچھے وہ تاریخی حقائق پوشیدہ ہیں کہ جو مسلمان اقوام سے مخفی رکھے گئے ہیں۔آل سعود کی تاریخی حقیقت کیا ہے۔۔۔۔؟آلِ سعود کا حقیقی حسب و نسب کیا ہے۔۔۔۔؟ آل سعود کس طرح سے مکہ اور مدینے پر قابض ہوئے ۔۔۔؟ آل سعود نے کیسے کیسے مسلمانوں کے خلاف جرائم انجام دئے۔۔۔؟ اور بھی بہت سارے حقائق سے آگاہی کے لیے اور آل سعود کے چہرے پر پڑے مقدس نقاب کو ہٹادینے والے علمی ،تاریخی ریسرچ پر مبنی حقائق پر مشتمل ہمارے اِن قسط وار مقالوں کا ضرور مطالعہ کیجئے۔

آل سعود کی تاریخ لکھنے والے معروف مصری مصنف شیخ ناصر سعید اپنی کتاب ’’تاریخ آل سعود‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:
851 ہجری میں ’’مسالخ یا مصالیخ ‘‘ نامی عشائر کے ایک قبیلہ ’’بنی عنزہ یا بنی عنیزہ‘‘ کے کچھ تاجر’’ سحمی بن ہزلول‘‘ کی قیادت میں گندم اور دالوں کی خریداری کیلئے نجد سے مصر میں وارد ہوئے اور وہاں انکی ’’مردخائی ابن ابراہیم‘‘ نامی یہودی تاجر سے ملاقات ہوئی۔ یہ یہودی تاجر انتہائی زیرک تھا اس کو جب پتہ چلا کہ یہ کاروان نجد کے صحرائی عربوں پر مشتمل ہے تو بہت خوش ہوا، احوال پرسی کے بعد ان سے باتوں باتوں میں انکے قبیلہ کا معلوم کرنے کے بعد اپنے آپ کو بھی ان کے قبیلے سے متعلق قرار دے دیا اور بولا کہ میرے باپ کی قبیلہ عنیزہ سے دشمنی اس بات کا سبب بنی کہ ایک طویل عرصے تک اپنے قبیلہ سے دورعراق اور پھر بصرہ میں زندگی گزاروں۔[1]

عرب کے تپتے صحراء میں زندگی گزارنے والوں نے جب اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والے اس امیر تاجر کو خود اپنا ایک فرد پایا تو بہت خوش ہوئے اور یوں اس یہودی اور قبیلہ عنیزہ کے ان افراد کے تعلقات کا نیا دور شروع ہوگیا، عرب بھی اس بات کی پروا کئے بغیر کہ فرد موصوف ایک یہودی ہے اس بات پہ راضی ہوگئے کہ یہ امیر تاجر انکی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جب رخصتی کا وقت آیا توعرب ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ یہ یہودی ان کے ساتھ نجد جانے کیلئے درخواست کر بیٹھا، شاید بصرہ میں پہچانا جا چکا تھا یا کسی بھی اور وجہ سے نہیں چاہتا تھا کہ اب بصرہ میں زندگی گزارے، آخرکار یہ یہودی قبیلہ مصالیخ کے ایک فرد کے عنوان سے راہیِ سفر ہوا اور نجد میں ’’قصیم ‘‘ نامی علاقہ میں پہنچ کر زندگی گزارنا شروع کیا اور وہاں آباد یہودیوں سے مراسم بڑھانے شروع کر دئیے۔ جب اہل قبیلہ نے یہ دیکھا تو اس علاقے کے ایک دینی پیشوا ’’شیخ صالح سلیمان ابن عبداللہ تمیمی‘‘ کی قیادت میں ’’مردخائی‘‘ نامی اس یہودی تاجر کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ یہودی ’’قصیم‘‘ سے بھاگ کر ’’احساء‘‘ کی جانب بھاگ گیا اور احساء میں اپنا نام بدل کر ’’مرخان ابن ابراہیم ابن موسیٰ‘‘ رکھ لیا اور پھر وہاں اسہی نام سے مشہور ہوگیا۔

کچھ عرصہ بعد وہاں سے بھی بھاگ کر قطیف کے نزدیک ایک علاقہ ’’ام الساہک‘‘ میں جا بسا اور وہاں کا نام ’’درعیہ‘‘ رکھ دیا۔[2]درعیہ میں اس ملعون یہودی نے اپنے ہم مذہبوں کو لاکر بسانا شروع کیا تو وہاں موجود مسلمانوں کے ایک قبیلہ’’عجمان‘‘ نے اس یہودی کی سازشوں کو بھانپ کر دو مسلمان قبیلوں ’’بنی ہاجر اور بنی خالد‘‘ کی مدد سے درعیہ پر حملہ کرکے اس علاقہ کو ویران کر ڈالا مگر یہ یہودی اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت وہاں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور وہاں سے نجد چلا گیا اور بعد میں ادھر سے ’’ملیبید‘‘ اور پھر وہاں سے ’’غصیبہ‘‘ نامی علاقہ میں رہائش اختیار کر لی۔غصیبہ، ’’عارض‘‘ نامی اس علاقہ میں واقع ہے جو آج سعودی دارالحکومت ’’ریاض‘‘ کے نام سے معروف ہے۔[3]ارض میں اس یہودی نے اپنا کسب و کار شروع کیا اور یہیں اپنی دولت کی بدولت مختلف قبائل میں شادیاں بھی کیں اور کنیزیں بھی خریدیں، جس کا نتیجہ کثیر اولاد کی شکل میں نکلا اور ایک بڑا خاندان تشکیل پاتا گیا۔

اسکی اولاد نے بھی اسکی روش پر چلتے ہوئے دھوکے بازی اور مکاری سے کام لیتے ہوئے آہستہ آہستہ علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی نسلوں کے نام بھی اعراب کے ناموں پر رکھنے لگے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ سازشی ٹولہ آہستہ آہستہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر اتنا جری ہوگیا کہ اعراب کی طرح اپنا ایک ’’عربی شجرہ نسب‘‘ بھی لکھ ڈالا اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس میں اپنے آپ کو ’’سادات‘‘ کی نسل سے ملحق کرکے عرب قبیلہ عنیز(یا عنیزہ)، ربیعہ اور مسالیخ سے نسبت دینے لگے۔

زر پرست مورخین بھی اس خبیث نسل کو کبھی پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے جد حضرت عدنان ؑ کی نسل سے جوڑنے لگے تو کبھی نسل ’’قحطان‘‘ سے منسوب کرنے لگے۔ انہی درباری اور حقیقت فروش مورخین میں سے ایک ’’محمد امین تمیمی‘‘ نام کا وہ مصری شہری بھی ہے جو سعودی شاہی نظام میں مکاتبات ’’خطوط اور روابط‘‘ کے دفتر کا ذمہ دار بھی رہا ہے۔ اس نے نا فقط آل سعود بلکہ محمد بن عبدالوہاب کا شجرہ نامہ لکھ کر ان کو آل رسولؐ میں سے قرار دیا اور اس خدمت کے بدلے اس نے 1362 ہجری قمری بمطابق 1943 عیسوی میں قاہرہ میں مصری سفیر ’’عبداللہ بن ابراہیم فضل‘‘ کے ہاتھوں 35 ہزار لیرہ بھی دریافت کئے ہیں، اور یہودی وفادار یہی وہ خائن مورخ ہے جس نے مصری عوام کے ہاتھوں مسترد شدہ فرد ’’ملک فاروق بورونی‘‘ کیلئے بھی 1952 عیسوی میں ایک شجرہ نامہ لکھا اور اسے بھی ’’سادات‘‘ میں سے قرار دیا۔[4]
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ’’مردخائی‘‘ نامی یہودی کا ایک بیٹا جس کا نام’’ ماک رن‘‘ تھا، عربی میں اس کا نام بدل کر’’مقرن‘‘ کردیا گیا اور بعد میں اسہی ’’مقرن یا مارک رن‘‘ کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا جو بعد میں’’سعود‘‘ کے نام سے معروف ہوا اور یہی وہ فرد ہے کہ جس کے نام پر اس خاندان کی ساری اولادیں’’آل سعود ‘‘ کے نام سے منسوب ہوئیں۔

ناصر سعید نے واشنگٹن پوسٹ کی 17 ستمبر 1969 کی اشاعت کے حوالے سے ایک اور جملہ ’’ملک فیصل ‘‘ سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
یہودی ہمارے چچا زاد ہیں اور ہم اس بات پہ راضی نہیں ہیں کہ ان کو سمندر میں دھکیل دیا جائے[5]، آل سعود کی اس داستان کو تفصیلاً ’’تاریخ آل سعود ‘‘ نامی کتاب جو ناصر سعید نے تحریر کی ہے ، میں پڑھا جا سکتا ہے۔

تاریخ البلاد العربیہ السعودیہ نامی کتاب کے مطابق سعود ابن محمد کا نسب ’’ربیعہ ابن مانع‘‘ تک پہنچتا ہے اور اس کتاب کے مطابق یہ ربیعہ قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ آل سعود کا نسب بیان کرنے والی خود آل سعود ہی کی ایک اور مستند کتاب ’’عنوان المجد فی تاریخ النجد‘‘ اپنے صفحہ 99 پر نقل کرتی ہے کہ آل سعود کا تعلق عنزة بن أسد بن ربيعة سے تھا، جبکہ مکتب اہل سنت کی مستند تاریخی کتاب ’’المختصر فی الاخبار البشر‘‘ جو ’’تاریخ ابی الفداء‘‘ کے نام سے معروف ہے، آل سعود کے اس جد کی حقیقت کو طشت از بام کرتے ہوئے نقل کرتی ہے:’’عنزہ ابن اسد جس سے آل سعود اپنا شجرہ جوڑتے ہیں، در حقیقت خیبر کے یہودی قبیلہ بنوعنزۃ سے تھا‘‘۔[6]

اس حقیقت کو Middle East Strategy at Harvard (MESH) نامی ایک ویب سایٹ جو Harvard University کے ایک تحقیقاتی تھِنک ٹینک کی ویب سایٹ ہے، اس پر بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس ویب سایٹ کے مطابق صدام حکومت کے ختم ہونے کے بعد امریکی فوج نے صدام کے سرکاری محل سے جو اہم دستاویزات قبضہ میں لی تھیں اس میں عراقی انٹیلی جنس کی وہ خفیہ رپورٹ بھی شامل تھی جس میں اس نے آل سعود سے متعلق اپنی گزارشات تحریر کی تھیں۔ ان گزارشات کو پینٹاگون کے فوجی تحقیقاتی ادارے نے انگلش میں ترجمہ کرکے شایع کیا تھا، ان عراقی دستاویزات کے مطابق بھی آل سعود کا یہ خاندان در اصل ایک یہودی خاندان تھا جو زمانہ قدیم میں نجد میں آکر رہائش پذیر ہوگیا تھا۔[7]

بہرحال یہ ایک تاریخی مسلمہ بات ہے کہ آل سعود کا نسلی سلسلہ یہودی قبائل سے جا کر ملتا ہے اور ہمیشہ سے یہودیوں کیلئے آل سعود کے دل میں پائی جانے والی ہمدردی اور قلبی احترام، آل سعود کا تاریخی اثاثہ رہا ہے، اس سلسلے میں تو سعودی بادشاہ ملک سلمان صاحب کی سوشل میڈیا پر موجود وہ ویڈیو بھی دیکھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے اپنے اجداد کیساتھ آل سعود کی حکومت برقرار کرنے میں یہودیوں کی شراکت پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے اور انکے متعلق ہمدردانہ گفتگو کرتے ہوئے انکے لئے رحمت طلب کی ہے۔
یہ آل سعود کے شجرہ و نسب سے متعلق کچھ مختصر عرائض تھے۔

[1]۔ تاریخ آل سعود تالیف ناصر سعید المصری
[2]۔ کتاب جزیرۃ العرب-مصنف حافظ و ہبہ
[3]۔تاریخ جزیره العرب فی القرن العشرین
[4]۔التنبیہ و الاشراف ص 195‌ و جامع الصغیر ج 2 ص 90 و تاریخ پیامبر اسلام(ص)،ڈاکٹر ابراہیم آیتی چاپ دانش گاہ تہران
[5]۔تاریخ آل سعود- ناصر سعید
[6]۔قدماء الیهود و اسلام آل سعود- للشیخ‌ علی محمد الصالح ص 146‌
[7]۔الیهود فی جزیره العرب‌ -للشیخ‌ امام الازهر الظواهری‌