امام خمینی 22 فروری 1989 میں مراجع کرام اور ملک کے تمام آئمہ جمعہ کے نام اپنے بہت ہی اہم پیغام میں تحریر فرماتے ہیں: ’’دینی مدارس میں تحصیل اور تحقیق کی روش کے بارے میں بندہ روایتی فقہ اور اجتہاد جواہری (صاحبِ جواہرُ الکلام سے منسوب فقہی روش) پر اعتقاد رکھتا ہوں۔ اور اُس کی خلاف ورزی کو جائز نہیں سمجھتا ہوں۔ اجتہاد اُسی طریقے سے صحیح ہے، لیکن اِس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی فقہ میں تحرُّ ک نہیں پایا جاتا، اجتہاد میں دو عنصر زمان اور مکان اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ جو قدیم ایک حکم رکھتا تھا ظاہراً وہی مسئلہ ایک نظام پر حاکم سیاست، اجتماع اور اقتصاد کے درمیان ارتباط (کی وجہ سے) ممکن ہے ایک جدید حکم کا حامل ہو، اِن معنوں میں کہ اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی ارتباط کی گہری و دقیق شناخت کے ساتھ، وہی پہلا موضوع ظاہری طور پر قدیمی کے ساتھ فرق نہیں رکھتا ہے، درحقیقت ایک جدید موضوع بن چکا ہے جو ایک جدید حکم طلب کرتا ہے‘‘[16] ۔

اس کے باوجود امام خمینیؒ رائج اجتہاد کو معاشرہ چلانے کے لیے کافی نہیں سمجھتے ہیں اور آپ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’مجتہد کو چاہیے کہ اپنے زمانے کے مسائل پر تسلّط رکھتا ہو۔ لوگوں کے لیے اور جوانوں کے لیے حتیٰ عوام کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایک مرجع اور مجتہد کہے کہ میں سیاسی مسائل پر بات نہیں کرتا ہوں۔ دنیا پر حاکم مصنوعی اور فریبی ثقافت سے دوبدو ہونے کے طریقے، بصیرت کا حامل ہونا اور اقتصادی نگاہ کا حامل ہونا، دنیا پر حاکم اقتصاد کا سامنا کرنے کے طریقے سے باخبر ہونا، مختلف سیاستوں کی شناخت اور حتیٰ سیاستدانوں اور اُن کی طرف سے ڈکٹیٹ کئے گئے فارمولوں کی شناخت، اور دو محور، کیپٹلزم اور کمیونزم کی حالت، مظبوط اور کمزور نقاط کو سمجھنا جو کہ درحقیقت دنیا پر حکومت کی اسٹریٹجی بناتے ہیں،(یہ خصوصیات) ایک جامعیت کے حامل مجتہد کی خصوصیات میں سے ہیں۔ ایک مجتہد کو ایک بڑے اسلامی معاشرے اور حتیٰ غیر اسلامی معاشرے کی ہدایت کے لیے گہری نظر رکھنے والا، باہوش اور فہم و فراست کا حامل ہونا چاہیے۔

3۔سیاسی اور اجتماعی مسائل
خالص محمدی اسلام، دین اور اسلامی فقہ کی جامعیت کی وجہ سے اجتماعی سیاسی پہلو میں فقط دین کے عبادتی اور انفرادی پہلوؤں پر اکتفا نہیں کرتا ہے اور دین کو اجتماعی پہلو کا حامل سمجھتا ہے اور انفرادی توحید کے علاوہ معاشرتی و اجتماعی مختلف پہلوؤ ں میں توحید ی معاشرے کے لیے کوشاں ہے۔ اِسی وجہ سے تمام اجتماعی پہلوؤں میں رہنمائی، دستور العمل اور قانون فراہم کرتا ہے۔ اِس لحاظ سے خالص محمدی اسلام، حکومت کو دین کا جزء سمجھتا ہے اور سیاست کو عینِ دیانت جانتا ہے اور سیاسی میدان میں سنجیدگی کے ساتھ سرگرم رہنے کو تمام دینداروں کا وظیفہ سمجھتا ہے، کیوںکہ اجتماعی عدالت اور قسط کے نفاذ کو دینِ اسلام کے اہم ترین سیاسی، اجتماعی ہدف کے طور پر بیان کرتا ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اِس بارے میں فرماتے ہیں: ’’درحقیقت انبیاء علیہم السلام کا اہم ترین وظیفہ ایک عادلانہ اجتماعی نظام کو قوانین اور احکام کے ذریعے برقرار کرنا ہے جو البتہ احکام کو بیان کرنے اور الہی عقائد اور تعلیمات نشر کرنے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، جیسا کہ اِس آیۂ شریفہ کے معنی سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۔[17] ’’بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں‘‘ (سورہ حدید آیۃ ،25)۔ انبیاء کی بعثت کا کلی ہدف یہ ہے کہ عوام الناس کو عادلانہ اجتماعی روابط کی بنیاد پر منظّم کرتے ہوئے انسانیت کو اُس عظمت کی طرف پلٹائیں اور یہ (کام) حکومت کی تشکیل اور احکام کے اجراء کے ذریعے ہی ممکن ہے، خواہ خود نبی ایسی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جیسے کہ رسول اکرمؐ (کامیاب ہوئے) یا خواہ اُس نبی کے پیروکار اُس کے بعد حکومت تشکیل دینے اور اجتماعی عدالت پر مبنی نظام تشکیل دینے کی توفیق حاصل کریں‘‘[18]۔

امام خمینی دین اور سیاست کی جدائی کو غربی استعمار کے افکار و نظریات میں سے سمجھتے ہیں اور اِس بارے میں فرماتے ہیں: استعمار نے ہمارے ذہن میں یہ تصّور بٹھا دیا ہے کہ اسلام حکومت کا حامل نہیں ہے، حکومتی تشکیلات کا حامل نہیں ہے، بالفرض اگر کوئی احکام رکھتا ہو تو کوئی اُن احکام کو نافذ کرنے والا نہیں ہے اور خلاصہ یہ کہ اسلام فقط قانون بناتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ایسی تبلیغات مسلمانوں کو سیاست اور حکومت کی بنیاد وغیرہ سے روکنے کے لیے استعماری طاقتوں کی طرف سے بنائے جانے والے منصوبوں کا ایک حصہ ہیں، ایسی باتیں استعماری طاقتوں اور اُن کے کارندوں نے گھڑی ہوئی ہیں تاکہ دین کو دنیوی اُمور میں تصّرف اور معاشرے کو منظّم کرنے سے دُور رکھا جائے۔ اِس طرح (یہ استعماری طاقتیں) عوام پر مسلط ہوکر ہمارے مال و ثروت کو نابود کرسکتے ہیں، اِن (استعماری طاقتوں کا) مقصد یہی ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کا نماز پڑھنے، دعا اور ذکر پڑھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہ ہو تو استعماری طاقتوں اوراُن کی ظالم و جابر متحد حکومتوں کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔۔۔ اُس پست و ذلیل شخص (عراق پر قابض انگریزوں کی حکومت کے زمانے میں) نے پوچھا تھا: یہ جو مسجد کے مِنار سے اذان دی جاتی ہے اِس سے برطانیہ کی حکومت کو کوئی نقصان ہوتاہے؟ کہا گیا: نہیں(کوئی نقصان نہیں ہے)۔ تو اُس نے کہا جتنی(اذانیں) دینی ہے دیتا رہے؛ اگر آپ کو استعماری طاقتوں کی سیاست سے کوئی سروکار نہ ہو اور آپ فقط یہی احکام کہ جن کے بارے میں آپ ہمیشہ بحث کرتے ہیں (تمام) اسلام کو سمجھیں اور اُن(احکام) کی ہرگز خلاف ورزی بھی نہ کریں تو(استعماری طاقتیں ) آپ سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گی‘‘[19]۔

امام خمینی اپنی دنیوی زندگی کے آخری سالوں میں علماء کے نام اپنے ایک پیغام میں اِن مطالب کی وضاحت اِس طرح سے فرماتے ہیں: جب استکبار علماء اور حوزہ علمیہ کی مکمل نابودی سے مایوس ہو گیا تو اُس نے ضرب لگانے کے لیے عصر حاضر میں دو راستوں کا انتخاب کیا؛ ایک دباؤ اور رعب اور دوسرا فریب اور نفوذ کا راستہ۔ جب رعب اور ڈرانے دھمکانے کا راستہ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوا تو نفوذ کے راستوں کو تقویت پہنچائی۔ اوّلین اور اہم ترین حرکت، دین سے سیاست کی جدائی کا نعرہ اذہان میں ڈالنا جو کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حربہ حوزہ علمیہ اور علماء میں ایک حد تک کارآمد ثابت ہوا ہے یہاں تک کہ سیاست میں دخالت کو فقیہ کی شان کے خلاف اور سیاسی معرکوں میں وارد ہونا غیروں سے وابستگی کی تہمت اپنے ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے، یقیناً مجاہد علماء نے نفوذ سے زیادہ زخم کھائے ہیں۔ یہ گمان نہ کریں کہ (غیروں سے) وابستگی کی تہمت اور بے دینی کی تہمت کو فقط دشمنوں نے علماء پر لگائی ہے، بالکل بھی ایسا نہیں ہے (بلکہ) نا آگاہ علماء اور (غیروں سے) وابستہ آگاہ (علماء) کی ضربیں درجات کے حساب سے غیروں سے کاری تر تھیں اور ہیں۔’’۔ تمہارے بوڑھے باپ نے جتنا خونِ دل اِس متحجر طبقے (قدامت پسند اور تنگ نظر طبقہ) کے ہاتھوں پیا ہے، ہرگز بھی غیروں کے دباؤ اور سختیوں سے نہیں پیا ہے۔ جب دین سے سیاست کی جدائی کے نعرے نے اپنی جگہ بنالی تو ناآگاہ لوگوں کی منطق میں فقاہت، فردی اور عبادتی احکام میں غرق ہو جانا بن گیا فقیہ کو بھی اِس دائرے اور حصار سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ سیاست اور حکومت میں دخالت کرے، عوام کے ساتھ طرز معاشرت میں ایک عالم کی حماقت فضیلت بن گئی۔ بعض لوگوں کے خیال میں علماء اُس وقت قابلِ احترام اور تکریم تھے کہ جب اُن کے سراپا وجود سے حماقت ٹپکے مگر ایک سیاسی عالِم، باہوش اور تجربہ کار عالِم کو شک اور عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے اور یہ دینی مدارس میں رائج مسائل میں سے تھے کہ جو کوئی بھی نادرست راستے پر چلتا وہ دیندار تر سمجھا جاتا تھا‘‘[20]۔

4۔ظلم کا مقابلہ اور محرومین کی حمایت
اِس دلیل کی بنیاد پر کہ اسلام کا اہم ترین سیاسی اور اجتماعی ہدف قسط، اجتماعی عدالت اور عادلانہ توحیدی نظام کو اُس کے مختلف پہلوؤں میں برقرار کرنا ہے۔ خالص محمدی اسلام کے پیروکار ہمیشہ یہ اپنا وظیفہ سمجھتے ہیں کہ ظلم کے مارے لوگوں، محرومین اور مستضعفین کی حمایت اور اُن کا دفاع کریں اور ستمگرون اور مستکبرین اور طاغوتوں سے مسلسل اور سخت مبارزہ و مقابلہ کرنا چاہیے۔ اِس نقطہ نظر سے خالص اسلام کا اقتصادی اور معیشتی حوالے سے ہدف تمام محروموں کی محرومیت کو دور کرنا اور تمام طبقات اور لوگوں کا الہٰی اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے مستفید ہونا ہے۔ اِسی لیے خالص محمدی اسلام کے پیروکار ہمیشہ سے آرام طلب، اسراف کرنے والوں اور بے درد آسایش طلب لوگوں کے شدید مخالف رہے ہیں اور بھوکوں کی بھوک پر اور شکم پرستوں کی شکم پرستی پر کبھی بھی خاموشی اختیار نہیں کرتے ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اِس بارے میں فرماتے ہیں: ہمارا وظیفہ ہے کہ مظلوم اور محروم لوگوں کو نجات دیں ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم مظلومین کے حامی اور ظالموں کے دشمن بن جائیں۔ یہی وظیفہ ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنے دو گرانقدر فرزندوں یعنی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: کونَوا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً۔:’’ظالم کے دُشمن اور مظلوم کے مددگار بن جاؤ‘‘[21]۔ اِسی طرح ایک اور جگہ میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے حکومت کو اِس وجہ سے قبول کیا ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالی نے علمائے اسلام سے یہ وعدہ لیا ہے اور اُن کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ ظالموں کی شکم پرستی اور غارت گری کے مقابلے میں اور مظلوموں کی بھوک اور محرومیت کے مقابلے میں خاموش نہیں رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے نہ رہیں‘‘[22]۔
امام خمینی رضوان اللہ علیہ خالص محمدیؐ اسلام کے ماننے والے علماء سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں: حقیقی علماء کبھی بھی سرمایہ داروں، پیسوں کے پجاریوں اور خائنوں کے بوجھ تلے نہیں آئے اور ہمیشہ اِس شرافت کی اپنے لئے حفاظت کی ہے اور یہ ایک بڑا ظلم ہوگا کہ کوئی کہے خالص محمدیؐ اسلام کے حامی حقیقی علماء سرمایہ داروں کے ساتھ ہم پیالہ ونوالہ ہیں۔ اور وہ لوگ کہ جنہوں نے ایسا پرپیگنڈہ کیا یا ایسی فکر کرتے ہیں خداوندِ متعال اُنہیں نہیں بخشے گا۔ متعہد علماء، خونخوار صفت سرمایہ داروں کے سخت دُشمن ہیں اور بالکل بھی اُن کے ساتھ آشتی اور صلح نہیں رہی ہے اور نہ ہی رہے گی۔ اُنہوں نے زُہد، تقویٰ اور ریاضت کے ساتھ درس حاصل کیا ہے اور علمی اور روحانی مقامات کسب کرنے کے بعد اُسی زاہدانہ، فقر و تنگدستی اور دنیا کی چمک دھمک سے لاتعلق رہ کر زندگی گزاری ہے اور بالکل بھی (سرمایہ داروں) کے احسان اور ذلّت کے بوجھ تلے نہیں گئے ہیں۔ گذشتہ علماء کی زندگی پر گہری نگاہ اور مطالعہ، تعلیمات و معارف کو کسب کرنے کے لیے اُن کے فقر اور نتیجتاً اخلاق و کرامت سے پُر روح کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے اُنہوں نے شمع کی روشنی میں اور چاند کی روشنی تلے کسب علم کیا ہے اور قناعت اور عظمت کے ساتھ زندگی گزاری ہے‘‘[23]۔

16ـ صحیفہ نور، ص 98
17ـ سوره حدید آیه 25.
18ـ ولایت فقیه، ص 59، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ هفتم
19ـ ایضاً ص 14 تا 16
20ـ صحیفه نور ج 21 ص 91
21ـ نهج‌البلاغه، نامه 47 ص
22ـ ایضاً، خطبه 3 ص 11
23ـ ولایت فقیه ص 28 و 29،