فری میسن کی سرگرمیاں
فری میسن کی سیاہ کاریوں کی تاریخ بہت ضخیم ہے جسکا احاطہ کئی صدیوں پر محیط ہے، دنیا بھر میں حکومتوں کے تختہ الٹ کر اپنے مطیع افراد لانے، قوموں کی ثروت کو ہڑپ کرنے، فردی قتل و غارت سے لیکر اجتماعی قتل، فحاشی و فساد کا فروغ، نشہ و مستی میں مبتلا کر کے معاشروں کی بربادی، یہ سب انکے تاریخی شاہکاروں میں سے چند نمونہ ہیں۔ شجروں کی تحقیق کےحوالے سے معروف ایک مغربی ویب سایٹ Ancestry کے مطابق 14 اپریل 1912 کو ’’ناقابل غرقاب‘‘ بحری جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ جسکے متعلق یہ کافرانہ جملہ کہا گیا تھا کہ اس کو خدا بھی تباہ نہیں کرسکتا، اس کی تباہی میں متہم کمپنی اور جہاز مالکان کے خلاف کی جانے والی برطانوی سرکاری تحقیقات کے مطابق اس جرم کو ایک حادثہ قرار دیکر اس حادثہ کے ذمہ دار جہاز کے عملہ، اس کے مالک اور اسکو بنانے والی کمپنی کو بچا لیا گیا، کیونکہ وہ سب ’’فری میسن ‘‘ سے وابستہ افراد تھے، فقط یہی نہیں بلکہ تحقیقات انجام دینے والی سرکاری کمیٹی کے اراکین بھی ’’ فری میسن‘‘ سے وابستہ تھے، برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق اسکے پانچ اراکین میں سے دو اہم ترین نام پروفیسر جان ہارورڈ بایلز اور ایڈورڈ چیسٹن، فری میسن کا حصہ تھے۔ اس ویب سایٹ کے مطابق اس سانحہ کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی سربراہی ایک فری میسن لارڈ مرسی کر رہے تھے نہ صرف یہ بلکہ یہ ساری کاروائی لندن میں واقع فری میسن کے ایک اہم مرکز ’’میسن لاج‘‘ میں انجام دی جا رہی تھی، برٹش بورڈ آف ٹریڈ کے صدر سڈنی بکسٹن خود بھی ایک میسن اور ’’میسن لاج‘‘ کے رکن تھے، بلفاسٹ شپ کمپنی جہاں یہ جہاز تیار کیا گیا تھا اسکے مالک بھی فری میسن کا حصہ تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ ان سارے میسنز نے ملکر اپنی انجمن کے مجرم بھائیوں کو بڑی مہارت سے بچا کر یہ معاملہ تاریخ کے قبرستان میں دفن کردیا۔ یہ سارا قضیہ ایک اور برطانوی معروف اخبار’’ دی انڈی پینڈنٹ‘‘ نے بھی اپنی ویب سایٹ پر نشر کیا ہے۔|4| فری میسن تنظیم کی جانب سے اپنے اراکین کی مجرمانہ سرگرمیوں کے باوجود کی جانے والی پشت پناہی کی ایک اور مثال 1888 میں لندن کے علاقہ ایسٹ اینڈ میں کئے جانے والے خواتین کے سلسلہ وار قتل میں ملوث بدنام زمانہ قاتل ’’جیک دی رپر‘‘ بھی فری میسن سے وابستہ تھا اور اس نے سارے قتل فری میسنری کی رسومات کو انجام دینے کیلئے انجام دئے تھے۔|5|
فری میسن اور برصغیر پاک و ہند
دنیا بھر میں فری میسن کی سیاہ کاریوں سے یہ دو مثالیں بیان کرنے کے بعد ہم اگر صرف اپنے خطہ برصغیر پاک و ہند میں اس ابلیسی جماعت کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو ہم کو اندازہ ہو جائے گا کہ خطہ کی تباہی کیساتھ ساتھ اس انجمن نے کس طرح مسلمانوں کی بربادی اور انکی ثروت کو لوٹنے میں تباہ کن کردار ادا کیا ہے، یہ صیہونی جماعت ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ختم کرنے کیساتھ ساتھ وطن عزیز پاکستان کو دولخت کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔ فری میسن کی شیطانی سرگرمیاں دنیا بھر میں صیہونی منصوبہ سازوں کی سیاہ کاریوں میں مدغم ہو چکی ہیں، لیکن اگر پوری دنیا کو چھوڑ کر فقط بر صغیر پاک و ہند میں اس کی تباہ کاریوں پر تحقیقی کام کیا جائے تو انتہائی ہولناک انکشافات جنم لیتے ہیں۔

جناب بشیر احمد اپنی کتاب ” فری میسنری ” میں لکھتے ہیں:
” میسور کی دوسری لڑائی 1780- 1784ء کے زمانہ میں نواب حیدر علی کے خلاف سازشیں فری میسن لاجوں میں تیار ہوتی تھیں۔ ایسے ہی شیر میسور ٹیپو سلطان کی برطانوی سامراج کے خلاف میسور کی جنگ 1799ء میں نظام کی افواج کی کمان جس انگریز جنرل آرتھر ولزلے کے پاس تھی وہ فری میسن تھا اور لارڈ ولزلے گورنر جنرل کا چھوٹا بھائی تھا۔ ٹیپو سلطان نے برطانوی سامراج کو شکست دینے کے مجاہدانہ عزم کے لیے ایک تو فرانس کی مدد لی دوسرے وہ فرانس کی ایک انقلابی جماعت جیکوبن کلب Jacobin Club کے ممبر بنے۔ اس کلب کے انقلابی نظریات کے باعث فری میسن اس کے سخت مخالف تھے ایسا معلوم ہوتا ہے فرانسیسی گرینڈ اورینٹ ٹیپو سلطان کو شکست دلوانے میں پوری پوری دلچسپی رکھتی تھی۔|6|

برصغیر کے استعمار مخالف ان سپوتوں کی شہادت کے بعد صیہونی نیٹ ورک کے شکنجہ میں جکڑی برطانوی سلطنت نے جس طرح ہندوستان کی دولت و ثروت، قدرتی وسائل اور قومی سرمایہ لوٹ کر اس خطہ کو ویران کیا اور یہاں کے باسیوں میں اختلاف، تفرقہ اور دشمنی کے بیج بو کر اپنے تاریخی سیاسی حربہ’’ لڑاو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے کو عملہ جامہ پہنایا وہ سب تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔

جناب بشیر احمد ہندوستان میں برطانوی حکومت کی زیر قیادت فری میسنری کے پھیلاو کے متعلق ایک جگہ کہتے ہیں:
”انگریز کے دور میں پنجاب میں فری میسنری تیزی سے پھیلی، یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کے فرانسیسی افسر جنرل ونطورا Ventura اور جنرل الارڈ Allard فری میسن تھے|7| اور فرانسیسی فری میسنری سے وابستہ تھے۔|8| نا صرف یہ بلکہ برطانوی افواج نے اپنی سرپرستی میں ہندوستان میں فری میسنز کو ایجاد کیا اور انکے قدم مضبوط کئے ہیں، اور اپنی لمبی مدت کی پلاننگ کیلئے اس شجر خبیثہ کو جس انداز میں پروان چڑھایا وہ اس سلسلے میں تحقیق کرنے والے تمام محققین کی نگاہ میں عیاں ہے، ’’ہندوستان میں فری میسنری کو متعارف کرانے والے برطانوی فوجی افسران تھے۔ انہوں نے فورٹ ولیم بنگال میں 1728ء میں پہلی انگلش فری میسن لاج قائم کی۔ اسی سال گرینڈ لاج انگلینڈ نے جارج پمفرٹ George Pomfret کو بنگال روانہ کیا تاکہ میسنری کو ترقی دی جائے۔|9|اس نے بنگال کی سیاسی صورتحال کی روشنی میں فری میسنری کا کردار متعین کیا اور ایک رپورٹ تیار کی,|10| 1730ء میں کلکتہ میں 72 بنگالی لاجز کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ کیپٹن رالف فارونٹر Ralf Fare winter پہلا صوبائی گرینڈ ماسٹر بنا،|11| قیام پاکستان کے وقت تک یہ لاجز بہت متحرک ہو چکے تھے۔ 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت سابق مشرقی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں ڈھاکہ، چٹا گانگ، مرشد آباد وغیرہ میں فری میسن لاجز قائم تھیں۔ ان کا تعلق براہ راست گرینڈ لاج انگلینڈ سے تھا۔|12| ظاہرا فری میسن کی پاکستان میں 1968 تک موجودگی رہی ہے اور ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کے درمیان اس انجمن پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن بعید ہے کہ صیہونی اداروں سے وابستہ اس انجم کی ریشہ دوانیاں اختتام پذیر ہوگئیں ہوں۔

1972 میں سانحہ مشرقی پاکستان میں وطن عزیز کے ٹکڑے کرنے میں بھی اسہی شیطانی انجمن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بھارت نے اپنی کمانڈو فورس جس کی تعداد پچاس ہزار سے اسّی ہزار کے درمیان تھی۔ بنگالی مسلمانوں کے بہروپ میں مشرقی پاکستان میں داخل کر دی تھی۔ اس فورس کو مشرقی پاکستان کے جنگلوں ، دلدلی علاقوں، آبی رکاوٹوں اور نشیب و فراز سے بھرپور خطے میں گوریلا جنگ لڑنے کی ٹریننگ اسرائیلیوں نے دی تھی اور اس کا کمانڈر ایک یہودی جرنیل جنرل جیکب تھا|13| جو اسرائیل نے بھارت کو بھیجا تھا۔ مشرقی پاکستان میں گوریلا اور کمانڈو آپریشن جنرل جیکب نے لڑایا تھا۔ پلاننگ بھی اسی کی تھی۔ اسے مشرقی پاکستان جیسے جنگلاتی اور ندی نالوں کی افراط والے علاقوں کی جنگ کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ دسمبر 1971ء میں جنرل نیازی کے پاس ہتھیار ڈلوانے کی دستاویز جنرل جیکب ہی لے کر ڈھاکہ گیا تھا۔|14|

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تشکیل پاکستان سے قبل ہی فری میسن کی سرگرمیاں جاری تھیں جو تشکیل پاکستان کے ۳۰ برس بعد بھی دھڑلے سے جاری رہیں، پاکستان کے نامور صحافی جناب اختر بلوچ صاحب جو سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہونے کیساتھ ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر بھی ہیں اور سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں، انہوں نے اس سلسلہ میں معروف روزنامہ ’’ڈان نیوز‘‘ میں ایک تحقیقی کالم لکھ کر شہر کراچی میں اس تنظیم کی فعالیت پر سے پردہ اٹھایا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’روزنامہ ڈان میں 19 جولائی 1973 کو شائع ہونے والی خبر جس کا عنوان ہے “شہر کا فری میسن ہال قبضے میں لے لیا گیا”۔ خبر کے مطابق ایک مجسٹریٹ کی سربراہی میں سندھ حکومت کی جانب سے فری میسن ہال قبضے میں لے لیا گیا اور اس میں موجود تمام دستاویزات بھی قبضے میں لے لی گئیں۔‘‘ خبر میں مزید بتایا گیا کہ؛ “کراچی میں پہلے لاج یعنی ہوپ لاج کا سنگ بنیاد 7 ستمبر 1843 کو رکھا گیا اور سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیئر کو بھی اعزازی رکن بنایا گیا. سرکار نے یہ قدم عوام کے مطالبوں اور فری میسن تنظیم کے ایک باغی گروپ کی ایماء پر اٹھایا، عام تاثر یہ ہے کہ فری میسن یہودیوں کی پروردہ اور اسلامی نظریات کے خلاف ہے۔”

وہ اس سلسلہ میں مزید لکھتے ہیں:
’’فری میسن تنظیم پر لگنے والی پابندی کے حوالے سے ایک ویب سائٹ پر دست یاب رپورٹ کے مطابق 16-06-1983 کو مارشل لاء ریگولیشن 56 کے تحت فری میسن کی غیر قانونی سرگرمیوں پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس حکم کے تناظر میں 29-12-1985 کو ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس سے قبل 1965 کے آخر میں حکومت پاکستان کی جانب سے مسلح افواج کے اراکین پر فری میسن، روٹری اور لائنز کلب کی رکنیت لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 1969 میں دیگر سرکاری ملازمین پر بھی پابندی عائد کردی گئی کہ وہ ایسے کسی ادارے کے رکن نہیں بن سکتے جس کے اغراض و مقاصد سے عوام ناواقف ہوں۔‘‘|15|

ان عبارات سے یہ بات باآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ فری میسن کی پاکستان میں فعالیت باقاعدہ جاری تھی یہاں تک کہ حکومت پاکستان کی جانب سے اس وقت کے حالات اور اطلاعات کے پیش نظر اس انجمن پر پابندی لگا دی گئی، اس پابندی سے یہ بات بھی سمجھ میں آ رہی ہے کہ اس انجمن کی فعالیت اور کارکردگی یقینا ملک و قوم کی مصلحتوں اور مفادات کے خلاف تھی جبھی ضیاء الحق جیسے امریکی پٹھو کی انتظامیہ نے بھی مجبور ہو کر اس انجمن پر پابندی عائد کردی۔ فری میسن فقط کراچی ہی میں نہیں بلکہ لاہور شہر میں بھی اس کی سرگرمیاں جاری تھیں، بی بی سی اردو کے ایک لکھاری جناب عدنان عادل صاحب نے اس سلسلے میں اپنے ایک کالم میں اس کا تذکرہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں:
’’شاہراہ قائداعظم پر لاہور کی تاریخی عمارت فری میسن ہال کے اندر ایک نیا کانفرنس ہال تعمیر کیا جارہا ہے جس کے منصوبہ کی بجٹ سے ماوراء اور کسی تشہیر کے بغیر خاموشی سے منظوری دے دی گئی ہے اور تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے، فری میسن ہال کی تاریخی عمارت کے سبزہ زار میں زیرزمین ہال سے اس تاریخی عمارت کے نقشہ اور فضا میں خاصی نمایاں تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس پر کسی ممکنہ تنقید سے بچنے کے لیے حکومت نے اس منصوبہ کو مشتہر نہیں کیا اور خاموشی سے سب مراحل طے کرلیے ہیں‘‘|16|

http://www.telegraph.co.uk/news/uknews/12010573/Was-Titanic-inquiry-scuppered-by-the-Freemasons.html
http://www.telegraph.co.uk/news/uknews/12010573/Was-Titanic-inquiry-scuppered-by-the-Freemasons.html
http://www.urdufamily.com/detail/159383/freemasons?page=1
http://www.independent.co.uk/news/uk/freemasons-may-have-influenced-titanic-inquiry-newly-disclosed-list-
of-members-names-reveals-a6745551.html
http://www.independent.co.uk/news/uk/home-news/churchill-oscar-wilde-and-jack-the-ripper-freemasons-from-throughout-history-to-be-revealed-a6744531.html
فری میسنری : 139 – 140
https://books.google.com/books?id=7PYDAAAAYAAJ&pg=PA219&lpg=PA219&dq=Ventura+freemason+india&source=bl&ots=4aLO2GzvZH&sig=SIZgBelaCin3pHqoOcJl20pm8pw&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwid0KHU-onYAhUC5mMKHUwJB5kQ6AEIOjAD#v=onepage&q=Ventura%20freemason%20india&f=false
فری میسنری : 141 – 142
https://www.telegraphindia.com/1080629/jsp/calcutta/story_9466827.jsp
https://books.google.com/books?id=XxwlDwAAQBAJ&pg=PA230&lpg=PA230&dq=George+Pomfret+freemason&source=bl&ots=IsL7_fLmUQ&sig=_SVNE2QKuNmAta8tH9AqriWAJdQ&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwiIi57Z-InYAhVKOxQKHRGRAZkQ6AEIMTAD#v=onepage&q=George%20Pomfret%20freemason&f=false
فری میسنری صفحہ-138
A Library of Freemasonry: Comprising Its History, Antiquities …, Volume 4 page132
https://books.google.com/books?id=dmouAAAAYAAJ&pg=PA132&dq=freemason+lodge+in+bengal&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwjJypK3-4nYAhUG7WMKHbBPArQQ6AEIMjAC#v=onepage&q=freemason%20lodge%20in%20bengal&f=false
Themes of Glory: Indian Artillery in War By Darshan Khullar
https://books.google.com/books?id=CBK7DgAAQBAJ&pg=PT88&dq=jfr+jacob+was+israeli?&hl=en&sa=X&ved=0ahUKEwjV3POy_onYAhVF22MKHUDSApkQ6AEIOzAE#v=onepage&q=jfr%20jacob%20was%20israeli%3F&f=false
تقسیم پاکستان کا المیہ اور عالمی سازشی طاقتیں
https://www.dawnnews.tv/news/1003193
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/02/040218_freemasons_lahore_fz.shtml