سوال یہ ہے کہ فری میسن آخر کیوں واحد عالمی نظام فکری کو پھیلانا چاہتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ فری میسن کے خفیہ اہداف میں سے ایک ہدف پوری دنیا سے ادیان کا خاتمہ اور انسانوں کی زندگی میں اسکے متبادل فکری و اخلاقی نظام کو جاگزین کرنا ہے، لیکن فری میسن اس کو بیان نہیں کرتے مگر جب دنیا بھر میں پھیلے دین مخالف انحرافی نظریات یا خدا دشمن اور شیطانی مقاصد کے حامل گروہوں کے پیچھے کسی نہ کسی مرحلہ پر فری میسن سے وابستہ کسی رکن کی پشت پناہی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بظاہر دین کو قبول کرنا ایک پالیسی کے تحت ہے۔ فری میسن پہلے مرحلہ میں دین کو ایک مطلوبہ امر کے طور پر قبول کرتے ہوئے کسی ملحد و بے دین اور خدا دشمن شخص کو اپنا حصہ بنانے سے احتراز کرتے ہیں اور اپنے حلقہ میں شمولیت کی سب سے پہلی شرط ہی کسی نہ کسی دین کا معتقد ہونے کو قرار دیتے ہیں لیکن اپنی منصوبہ بندی کے دوسرے مرحلہ میں ’’ Pluralismپلورالیزم‘‘ یا “دینی اجتماعیت” کے زہربھرے تفکر کی مدد سے یا تو دنیا کے تمام ادیان کو ایک مشترکہ حقیقت کا حامل قرار دیتے ہیں یا ان ادیان کو کسی نہ کسی خاص یا جزئی پہلو سے حق سے وابستہ قرار دیکر دنیا بھر کے ادیان کو درست قرار دے دیتے ہیں اور یوں کسی ایک ’’حقیقی دین‘‘ کی نفی کر کے آہستہ آہستہ دین کا انکار کر دیتے ہیں اور یوں انسان کو اعتقادی سطح پر چھیڑے بغیر عملی دنیا میں ملحد بنا کر اسکو اپنے فکری نظام کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں، جو لبرلزم/آزاد خیالی یا سیکولر ازم /لادینیت کی ترقی یافتہ شکل ہے، حالیہ دور میں یہی وہ نظریہ ہے جس کو اسلام جیسے حقیقی دین کے مقابلہ میں لا کر اس کو ختم یا کم از کم بے اثر کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور مسلمان معاشروں میں اسی نعرہ کی بنیاد پر دین کا شخصی معاملہ ہونے اور اجتماعی میدان سے خارج کر کے دین و سیاست کی جدائی کے نظریہ کو پروان چڑھا کر طاغوتی اور استعماری طاقتوں کے دنیا پر حاکم ہونے کی راہ ہموار کی جا رہی |1|ہے۔
شہید مطہری ؒ ایک جگہ اس خطرہ کو عیاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جب معاشرے میں اٹھنے والی کوئی تحریک اپنی انتہا کو پہونچ کر لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی ہے اور اپنے زمانے میں موجود دوسری تمام تحریکوں اور مکاتب پر غالب آجاتی ہے تو دوسرے مکاتب کے پیروکار اس تحریک کو ختم کرنےیا اس کو خود اسکے اندر سے کمزور بنانے کیلئے اس تحریک یا مکتب میں کچھ ایسے نظریات داخل کر دیتے ہیں جو اس کی نظریاتی روح سے متصادم ہوتے ہیں، اور اس طرح یا تو اس مکتب کو ختم کر دیتے ہیں یا اسے کمزور بنا کر بے اثر کر ڈالتے ہیں، اسلام کی روح سے متصادم نظریات اور افکار کا نفوذ ہے کہ جس نے آج اسلامی دنیا کو خطرہ سے دوچار کر رکھا ہے۔|2|
تاریخی مشکلات اور دشمن کے بنائے ہوئے ماحول کے زیر اثر آکر حوزہ علمیہ قم و نجف میں موجود بزرگان دینی بھی اس فکر کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے تھے، دشمن کے ہاتھوں پھیلائی گئی دین و سیاست کے جدائی کی یہی فکر ہے کہ جسکا مقابلہ کرتے ہوئے امام خمینی ؒ جیسی عظیم الہیٰ شخصیت بھی تنہا رہ گئی تھی اور اسلام کی اس تفکر سے آزادی کیلئے دنیا بھر کے علماء و دانشوروں کو مدد کیلئے پکار رہی تھی۔ ایک مرحلہ میں آکر امام امت ؒ علماء دین اور حوزہ علمیہ کے نام ایک خط، جو ایران میں ’’منشور روحانیت‘‘ کے نام سے معروف ہے، اس میں امام ؒ فرماتے ہیں:
’’جب استکبار، اسلام اور حوزہ علمیہ کی مکمل نابودی سے مایوس ہوگیا تو اس نے دو طریقوں سے (اسلام کو) نقصان پہونچانے کیلئے کوشش کی ہے، ایک دھونس و دھمکی اور دوسرا نفوذ اور سازشیں کرنا ہے، عصر حاضر میں جب دھونس و دھمکی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا تو نفوذ اور سازشوں کے طریقہ کا شدت سے استعمال کرنا شروع کر دیا، اس سلسلے میں سب سے پہلا اور اہم ترین حربہ ’’دین و سیاست کی جدائی‘‘ کا شعار بلند کرنا تھا، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ حربہ حوزہ علمیہ اور علماء کے درمیان اس قدر کارگر ثابت ہوا کہ سیاسی امور میں مداخلت فقیہ کی شان کے خلاف ہونے سے تعبیر ہونے لگی اور سیاسی جنگ میں حصہ لینے پر غیروں سے وابستہ ہونے کی تہمت لگنے |3|لگیں۔‘‘
رہبر معظم امام خامنہ ای اسی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اور ان نظریات کے پھیلانے میں شیطان بزرگ امریکہ، برطانیہ اور عالمی صیہونیت کے کردار کو عیاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’امریکہ اور برطانیہ کے تھنک ٹینکس آج ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھے اور نظریہ سازی کر کے ان کوپرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور انٹرنیٹ سے وابستہ سرگرم افراد اور سیاستدانوں میں پھیلا رہے ہیں، ان میں ایک بنیادی ترین نظریہ ’’ سیاسی دین کی مخالفت کرنا ‘‘ ہے، یعنی دین کے سیاست اور زندگی سے علیحدہ ہونے کی تبلیغ کرنا|4|۔‘‘

’’فقط اسلام نہیں بلکہ بشریت کے عالمی دشمن اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ وہ چیز جو پوری دنیا میں تحریکوں کے اٹھنے کا باعث بنی اور دنیا کے ایک بڑے حصہ پر وجود رکھتی ہے لازم ہے اس قوت سے مبارزہ کریں، وہ کونسی قوت ہے؟ وہ اسلام کی قوت ہے۔
آج یہ عالمی طاقتیں اسلام سے جنگ کر رہی ہیں، کیوں؟ کیونکہ اسلام پوری دنیا کے معاشروں کو رشد عطا کرنے والا اور انسانوں کو حرکت میں لانے والا ہے، انسانی صلاحیتوں کو ابھارے والا ہے اور مادیت و معنویت کے مشترکہ امتزاج کے حامل ایک تمدن کو وجود میں لانے والا ہے۔ کیونکہ اسلام میں اس چیز کی صلاحیت ہے کہ وہ عصر حاضر کے ظالم مادی تمدن کے ظلم کا راستہ روک سکے، یہی وجہ ہے کہ یہ |5|طاقتیں آج اسلام سے مختلف انداز میں جنگ کر رہی ہیں اور آج ان تمام دشمنیوں کی ڈور امریکہ اور صہیونیت کے ہاتھ میں ہے‘‘
ولی امر مسلمین جہان مختلف مواقع پر واشگاف الفاظ میں اس عالمی صیہونی نظام اور اسکے اہداف سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ہمارے دشمن وہ ہیں جن کو کسی کی کوئی پروا نہیں اور ان میں سر فہرست انسانیت سے دور وہ خطرناک صیہونی نیٹ ورک ہے جو مغربی حکومتوں و طاقتوں اور خاص طور پر امریکہ پر حاکم ہیں، فقط صیہونی حکومت(اسرائیل ) ہی نہیں بلکہ یہ پورا صیہونی نیٹ ورک ہے جو تاجروں اور دنیا بھر کے صف اول کے دولتمندوں پر مبنی ہے، پوری دنیا کی تبلیغات(میڈیا) ان کے ہاتھ میں ہے، پوری دنیا کے بینک انکے ہاتھ میں ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک پر مسلط ہیں، امریکی حکومت اور سیاست پر مسلط ہیں،یورپ کی بہت سی |6|حکومتوں پر مسلط ہیں۔
آج جن (طاقتوں) نے اسلام کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہوا ہے وہ سب مشخص ہوچکی ہیں کہ کونسے لوگ، کونسے نظام اور کونسے عوامل ہیں؟ یہ سب اس طاقتور نظام سے وابستہ ہیں جو دولت کیساتھ سیاسی و اقتصادی قدرت کے حامل ہیں، ان میں سے اکثر صیہونی ہیں، اگر یہودی صیہونی نہیں تو غیر یہودی صیہونی ہیں، آج دنیا میں یہودی اور غیر یہودی دونوں اقسام کے صیہونی پائے جاتے ہیں،|7|
رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای اس خبیث نظام کی خصوصیات کو بیان کرنے کیساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کےمقابل آنے والے دشمن ا ور حتیٰ یورپی ممالک کی مشکلات کا ذمہ دار بھی اسی صیہونی نظام سے وابستہ اور اسی فرعونی نظام کے پروردہ افراد کو قرار دیتے ہیں:
’’ہمارے مقابلہ میں آنے والا وہ محاذ جس کو ہم ’’ استکباری نظام‘‘ یا ’’ عالمی صیہونی نظام‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، ایک خبیث، دھوکہ باز اور ظالمانہ تفکرات پر مبنی ایسانظام ہے جو ایرانی عوام کے دینی اعتقادات، استقلال و خودمختاری اور انکے تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے |8|دشمنی پر اترا ہوا ہے‘‘
’’آج یورپی ممالک مثلا برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی میں موجود مشکلات کا سبب بھی یہی ہے کہ ان ممالک کی سیاست پر خبیث صیہونی نظام حاکم ہے، یہ وہ صیہونی سرمایہ دار اور ان سے وابستہ کمپنی مالکان ہیں جو دنیا میں بھرے پڑے ہیں،پلک جھپکتے میں فائدہ اٹھالے جاتے ہیں‘‘|9|
فری میسن یا عالمی صیہونی نظام کی یہ شاخ جو تقریبا پوری دنیا پر حاکم ہے، اگر آج اپنی راہ میں کسی چیز سے خطرہ محسوس کرتی ہے تو وہ دین اسلام ہے، مگر وہ اسلام جو انکی سازشوں کو سمجھ کر انکے مقابلہ میں آتا ہے اور پوری دنیا کو انکے مظالم سے آگاہ کر کے بیداری و آگاہی عطا کرتا ہے، اور یہ وہی اسلام ہے جو امام خمینی ؒ نے ’’اسلام ناب محمدی‘‘ یعنی رسول اکرم (ص) کے خالص اسلام کے نام سے بیان کیا ہے، کیونکہ یہ اسلام اللہ تعالیٰ کی حکومت اور اسکے نظام کی بالادستی کو اپنا اور تمام انبیاء و معصومین (ص) کا حقیقی ہدف قرار دیتا ہے لہذا بدرجہ اولیٰ دنیا بھر کے شیطانی پیروکار اور غاصب استکباری طاقتوں کے مد مقابل قرار پاتا ہے، اس حقیقی اسلام کے نظریہ کے مطابق خیر و شر کی اس دائمی جنگ کا آج حقیقی مصداق اسلام ناب محمدی اورصیہونی شیطانی نظام کے مابین جاری جنگ ہے جسمیں صیہونی نظام کے لاتعداد نمایندوں میں سے ایک نمایندگی فری میسن نامی یہ انجمن انجام دے رہی ہے اور اسلام ناب محمدی کی نمایندگی انقلاب اسلامی ایران کی رھبری میں دنیا بھر کے مظلومین انجام دے رہے ہیں۔
عالمی صیہونی نظام اور دنیا بھر کے مظلوموں میں جاری اس جنگ میں دنیا کی تمام ملتیں شریک ہیں اور ان تمام ملتوں کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار اس قوم کے اصلی ترین سرمائے یعنی اس قوم کے جوانوں پر منحصر ہے، عالمی صیہونی نظام نے اسی سرمائے کی بربادی اور غفلت کیلئے مختلف منصوبہ بنائے ہیں جس میں فحاشی، نشہ، بے روزگاری، ناامنی اور داخلی و خارجی جنگوں کے منصوبہ شامل ہیں، رہبر معظم امام خامنہ ای اپنی بابصیرت الہیٰ نگاہوں سے اس شیطانی منصوبہ بندی کو بھانپ کر فرماتے ہیں:

’’آج دنیا بھرمیں مختلف مخصوص مراکز کی مدد سے ایک مشترکہ سیاست کو چلایا جا رہا ہے، یہ سیاست جوانوں کو سر سے پاوں تک شہوات، جنسی غرایز اور اخلاقی فساد میں غرق کرنے کی سیاست ہے، یہ دنیا میں رایج وہ سیاست ہے جو شرق و غرب میں رائج کی جا رہی ہے اور دنیا کے ہر علاقہ میں منظور نظر خاص مقاصد کے تحت اس سیاست کو انجام دیا جا رہا ہے۔ وہ مراکز جو اِن سیاستوں کو تیار کرتے ہیں اس سیاست کے وسائل اور ہتھیاروں کو بھی فراوان فراہم کرتے ہیں۔ ان مراکز میں خاص طور پر صیہونی اقتصادی مراکز اور عالمی قدرت کے خواب دیکھنے والے وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے اپنی آنکھیں مختلف ممالک کی ثروتوں پر لگائی ہوئی ہیں، ایسے ممالک جو عموما پسماندہ، غریب اور کمزور ہونے کیساتھ ساتھ فراوان دولت کے منابع رکھتے ہیں، اس فراوان دولت کو پانے کی راہ میں اہم ترین رکاوٹ ان دولتوں کی مالک ملتوں کا عزم و ارادہ ہے اور ملتوں کا عزم و ارادہ ختم کرنے کا بہترین طریقہ اس ملت کے جوانوں کو برباد کردینا ہے کیونکہ جوان ہر ملک کی ایک سرگرم و متحرک قوت ہوتے ہیں۔ ان جوانوں کی تباہی کا بہترین طریقہ ان کو گناہوں میں آلودہ کرکے فحاشی، جنسی مسائل، مستی اور نشہ میں مبتلا کر دینا ہے۔ مغربی ممالک میں ان مسائل کا زیادہ ہونا اس ہی وجہ سے ہے تاکہ وہاں کے جوان صیہونیوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے پائیں۔‘‘|10|
ان ساری باتوں سے یہ چیز مشخص ہو جاتی ہے کہ صیہونزم ایک انتہائی منظم اور دنیا بھر میں پھیلے اس شیطانی نیٹ ورک کانام ہے جو اپنے منافع کے حصول کی خاطر ملتوں کو لوٹنے اور کھسوٹنے میں مشغول ہیں اور لوٹ مار کے اس گرم بازار میں وہ مختلف طریقوں، روشوں اور ذرایع سے استفادہ کر رہے ہیں جسمیں سے ایک ذریعہ فری میسن کی یہی عالمی تنظیم ہے جس کو رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای صیہونیوں کے عالمی نیٹ ورک کے عنوان سے یادفرماتے ہیں۔

[1] http://www.adyan.porsemani.ir/content/%D9%87%D8%AF%D9%81-%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%B3%D9%88%D9%86%D9%87%D8%A7

[2] نہضت ہای اسلامی در صد سال اخیرأص 90-92

[3] منشور روحانیت-حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ

[4] 19-10-1395

[5] اسلامی ممالک کے سفیروں  سے خطاب سے اقتباس(1396/02/05)

[6] 28/11/1394

[7] مجلس خبرگان رہبری سے خطاب(21-12-1393)

[8] ایرانی زمینی فوج کے افسران سے خطاب (07-06-1395)

[9] یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب(24/7/1390)

[10] 26-12-1381