نوروز کی حقیقت
نوروز کی حقیقت کیا ہے ؟نورو ز کے بارے میں اسلام کی نظر کیا ہے؟کیا نوروز کا تعلق کسی ایک مکتب فکر سے ہے؟
اسلام کے بعد نوروز کو اہمیت اور رواج دینے والے کون تھے؟مجوسی کون ہیں؟ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ نوروز کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔؟
نوروز کے جشن میں کیا مثبت نکات پائے جاتے ہیں؟ انقلاب اسلامی کے بعد نوروز کو کس شکل میں منانے کی تاکید کی جاتی ہے ؟
قبل از اسلام مشرکوں کے درمیان کیا مراسم رائج تھے اور اسلام نے کن مراسم کو رد کیا اور کن کن مراسم کو اُن کے مفہوم اور ماہیت تبدیل کرنے کے بعدقبول کیا۔۔۔؟
اِن تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہمارے اِس تحقیقی مقالے کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
اس موضوع پر تحقیقی گفتگو سے پہلے اس بات کا بیان ضروری ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے بہت سے مثبت اور بعض منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، مثبت باتوں کو سراہنا ہر ایک تعلیم یافتہ فرد کے اخلاقی فرائض میں سے ہے تو منفی باتوں کومنعکس کرنا بھی ایک اہل قلم کی ذمہ داریوں میں سے ہے، بعض اوقات اہل سنت و الجماعت یا شیعہ مکتب فکر کی نمائندگی میں ایسے کم علم ،شہرت پرست لوگ مکتب کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں جو کسی طور پر بھی اس بات کے اہل نہیں ہوتے، بعض لوگ موضوع پر مکمل عبور نہ رکھنے کی وجہ سے بھی اپنے مکتب فکر کی صحیح رائے پیش نہیں کرپاتے اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ بغیر تحقیق کے اسی گفتگو سے ایک خاص نظریہ قائم کرلیتے ہیں جو قطعا متعلقہ مکتب فکرکی حقیقی رائے نہیں ہوتا لہذا ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کے علمی موضوعات پر تحقیقی ریسرچ مختلف طریقوں سے عوام تک پہنچتی رہے تاکہ مسلمانوں کے مختلف مکتب فکر ایک دوسرے کے صحیح نظریات کے بارے میں علم حاصل کرکے قریب سے قریب تر ہوسکیں۔انہی موضوعات میں سے ایک موضوع نوروز ہے اور بعض مسلمان اس موضوع کے بارے میں صحیح طور پر معلومات نہیں رکھتے یہ مقالہ اس مقصد سے پیش کیا جارہا ہے تاکہ عوام و خواص کو اس دن کے بارے میں علمی معلومات دلائل اور تاریخی شواہد کی روشنی میں فراہم کی جاسکے۔

ایران میں اس عید کو ملی تہوار اور زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے پر بہار کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے، اور عید طبیعت(Nature) کے طور پر جاتا ہے جن میں تمام مکاتب فکر شامل نظرآتے ہیں،طبیعت میں آنے والی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو بہار انسان کے مزاج میں خوشی کی کیفیت لاتی ہے ،ہر شی تروتازہ اور ہری بھری ہوجاتی ہے ، بلبلوں کا چہچہانا بہار کی آمد کی خبر دیتا ہے، پس انسانی فطرت میں خوشی کی لہر کا اظہار نوروز ہے جبکہ ہندوستان او رپاکستان میں بعض شیعہ مکتب فکر کے سادہ لوح افراد اسکو مذہبی تہوار سمجھتے ہیں ، جبکہ بعض شدت پسند ،تنگ نظر، عادت سے عاجز ، نام نہاد اسلامی ٹھیکیدار ، اسکو بدعت ، کفر اور دیگر تمغوں سے نوازتے ہیں ۔

ہمدان یونیورسٹی کے استاد محترم امامی فر صاحب نے ایک محقق کے عنوان سے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہےہم انکی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ اور اِس حوالے سے رہبرِ معظم کے بیانات پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں امید ہے یہ مقالہ قارئین کی معلومات میں اضافہ اور حقیقی مطلب تک پہچنے کے لیئے مفیدثابت ہوگا۔

سب سے پہلے ہم اس پہلو پر گفتگو کرتے ہیں کہ خود عید کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
ہم ایک عام قانون کی طرف اشارہ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم اور ملت کسی اہم واقعہ یا حادثہ جو اِن کے لیے اہمیت کا حامل ہو بعنوان آغاز سال قرار دیتے ہیں، اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور اسکو ایک Event قرار دیتے ہیں، بعنوان مثال عیسائی حضرت عیسی کی پیدائش کے دن کو سال کا آغاز قرار دیتے ہیں، مسلمان ہجرت پیامبر اسلام ﷺ کو اسلامی سال کا آغاز قرار دیتے ہیں اور ایرانی شمسی نظام یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال کا آغاز شمار کرتے ہیں، ایرانی اس آغاز کو انقلاب اسلامی کے بعد سے ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں جیسے تاجیکستان، افغانستان،آزربائیجان، اور ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو Event کے طور پر مناتے ہیں۔

مشہور تاریخ دان یعقوبی رقم فرماتے ہیں کہ: انکے سال کا پہلا دن نوروز کے نام سے ہے ، جس میں آب نیسان بھی برستا ہے یہ اس وقت ہے جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور یہ دن ایرانیوں کے لئے بڑی عید ہے ۔ البتہ اس بات کو ایرانیوں کا حسن سلیقہ سمجھنا چاہیے کہ بہار کو سال کےآغاز کے لئے انتخاب کیا جس میں نباتات دوبارہ تروتازہ ہوتے ہیں اور ہریالی کا آغا ہوتا ہے، جس طرح یورپی ممالک عیسوی سال کو کہ جب موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے اور نباتات اور ہریالی خشک ہوجاتی ہے اور اُن کی تمام خوبصورتی اور زیبائی ختم ہوجاتی ہے تو جشن کے طور پر مناتے ہیں یہ اُن کا اپنا سلیقہ ہے ومزاج ہے۔

نورو ز کے بارے میں اسلام کی نظر کیا ہے؟
کسی بات کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام میں دو طرح کے احکامات ہوتے ہیں:
1. احکام تاسیسی: ان احکام کو کہا جاتا ہے جو اسلام سے پہلے نہیں تھے یعنی لوگوں کا اس سے پہلے سابقہ نہیں تھا اور اسلام نے آکر انہیں بنیادی شکل عطا کی ہے۔
2. احکام امضائی: ان احکام کو کہا جاتا ہے جو اسلام سے پہلے تھے یعنی لوگ ان احکام کو انجام دیتے تھے اور کسی اسلامی قانون کے مخالف بھی نہیں تھے اور اسلام نے یا تو ان کو مورد تائید قرار دیا اس لئے بہت سے احکام، مختلف ادیان میں یا حد اقل فطرت انسانی میں ایک جیسے ہیں او اسلام نے مختلف کلچرز ، مختلف علوم، آداب و رسوم کے سامنے ان اصل قوانین کی پیروی کی ہے۔

جس زمانے میں اسلام نے فتوحات کے ذریعہ پھیلنا شروع کیا اس وقت مختلف قومی ثقافتوں اور رسم و رواج سے سامنا ہوا ،اسلام اِن موارد سے دو طرح پیش آیا:
1. وہ آداب و رسوم جو اسلامی اہداف اور اصول کے مخالف تھے ان سے شدت کے ساتھ پیش آیا۔
2. وہ آداب و رسوم جو اسلامی اہداف و اصول کے برخلاف نہیں تھے، اس صورت میں یا اسکی تائید کی یا انکے مقابلے میں مخالفانہ رویہ اختیار نہیں کیا یعنی خاموشی اختیار کی۔

نوروز بھی ان قواعد اور قانون کلی سے خالی نہیں، نوروز کے مثبت پہلو بھی تھے اور منفی بھی البتہ یہ منفی پہلو کسی مذہبی تہوار میں بھی پایا جاسکتا ہے، صلہ رحمی، دوسروں کو تحفے دینا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ وہ امور تھے جو مثبت اور اسلام میں قابل تحسین ہیں اور خود ہر ایک موضوع پر احادیث نبوی ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کو رغبت دلائی گئی ہے ۔ کچھ منفی پہلو بھی ہیں جیسے علم کی کمی کی بنا پر اس کو مذہبی تہوارسمجھنا، بعض لوگوں کا اسراف کرنا ،اس دن گناہوں کا ارتکاب کرنا جیسے موسیقی وغیرہ جو ہر وقت اور ہر موقع پر حرام ہیں اور کوئی مسلمان ان امور کو انجام دینے کی اجازت نہیں دے گا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر یا قوم و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔انقلاب اسلامی کے بعد نوروز کو ایک اسلامی شکل دی گئی اور اِس میں موجود منفی پہلوؤں کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے، تاکہ لوگ اسلامی اور اخلاقی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مثبت اور دین اسلام کے مورد تائید اورقابلِ تحسین کام انجام دیں۔

کیا نوروز کا تعلق کسی ایک مکتب فکر سے ہے؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعاً نوروز کسی ایک مکتب فکر کی عید ہے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اوراس موضوع پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس لئے کہ اس تہوار کا مذہب اور کسی عقیدے یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران میں جہاں اس عید کا آغاز ہوا ،وہاں اس وقت بھی شیعہ اور سنی سب مل کر نوروز کو ملی عید کے طور پر مناتے ہیں، ایران کے علاوہ دوسرے ملکوں جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان،آذربائیجان جن میں اکثریت اہل سنت کی ہے وہ بھی عید نوروز کو روایتی طور پر مناتے ہیں ان کے لئے ہم کیا رائے قائم کرسکتے ہیں؟ اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بالکل اس تہوار کو نہیں منایا جاتا جبکہ دونوں مکتب فکر وہاں زندگی گزارتے ہیں جیسے کویت، لبنان اور عراق وغیرہ لہذا کسی خاص گروہ سے نسبت دینے کا یہ مطلب ہے کہ دشمن اس موضوع کے ذریعے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے، اوراب دشمن کا نیا طریقہ اسلامی لباس اور لبادہ میں آکر نام نہاد مفتیوں کے فتووں کے ذریعے مسلمانوں میں دوری ایجاد کرنا ہے، لیکن الحمدللہ اب تمام مسلمان ان بیوقوف شدت پسند مولویوں کو جانتے ہیں جو دشمن کے آلہ کار ہیں اور خصوصا پاکستان میں سرگرم عمل ہیں تاکہ اس اسلامی ملک میں بدامنی ایجاد کرکے کافروں کو بہانہ فراہم کریں ۔

مذہبی تہوار یا رسوم ہر مکتب فکر میں ہر جگہ مشترکہ طور پر منائے جاتے ہیں جیسے شیعہ اثنا عشری دنیا کے جس خطے میں بھی ہو امام حسین ؑ کا غم یا پیامبر اسلام ﷺ کے حضرت علی ؑ کی ولایت کے اعلان کے دن کو’[عید غدیر‘‘ کے نام سے مناتے ہیں۔

امام موسی کاظم ؑ سے روایت ہے کہ انہوں نے نوروز کو مجوسیوں کی سنت اور اسکے احیاء کو حرام قرار دیا دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ عراق میں میں امیر المومنین حضرت علی ؑ کے لئے فالودہ لایا گیا ۔ امام ؑ نے سوال کیا : یہ کیا ہے؟ کہا گیا نوروز کی مناسبت سے ہے ۔ امام ؑ نے فرمایا ہمارے لئے ہر دن نوروز ہے یہ نوروز سے متعلق امام علی ؑ کی بے اعتنائی کی دلیل ہے یعنی امام علیؑ کی نظر میں دوسرے دنوں اور اس نوروز میں کوئی فرق نہیں۔

اسی طرح دوسری روایات میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے نوروز کے دن تحفے لینے کے بارے میں سوال کیا گیا : امام ؑ نے سوال کیا کیا تحفہ دینے والا اور لینے والا دونوں نماز پڑھتے ہیں ؟ جواب دیا گیا: جی ہاں ، امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا : پھر کوئی اشکال نہیں ۔ اس حدیث سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ امام ؑ نوروز کو کوئی مذہبی حیثیت نہیں دے رہے بلکہ انکی نظر میں اہمیت ایمان کی ہے اور اسکی پہچان نماز سے ہوتی ہے۔

اسلام کے بعد نوروز کو اہمیت اور رواج دینے والے کون تھے؟
سب سے زیادہ بنو امیہ اور عباسی خلفاء نے اس دن کو رواج دینے میں اہم کردار ادا کیا ، کیونکہ نوروز کے اہم رسم و رواج میں حکمرانوں کو تحفے دینا تھا اور دو سرے ایرانیوں سے بہتر مراسم حکمرانوں کی طاقت اور حمایت کے لئے بھی ضروری تھے ۔ بنی امیہ کے بعد بنی عباس کے خلفاء جو ایرانیوں کی مدد سے خلافت و حکومت پر پہنچے اور انکی حکومت میں ایرانی وزراء بھی تھے ایرانیوں سے حمایت کے اظہار کے لئے نوروز میں مکمل آزادی دی جاتی تاکہ ایرانیوں کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں، عباسیوں کی مرکزی حکومت کی کمزور ہونے کے بعد اسلامی ممالک کے ارد گرد مختلف ریاستیں قائم ہوئیں جن میں صفاری ، سامانی ، آل بویہ ، غزنوی ، سلجوقی ، خوارزمی وغیرہ کی حکومتیں شامل تھیں یہ تمام کے تمام مذہب اور عقیدے کے اعتبار سے اپنے آپ کو بغداد کے حاکم اور خلیفہ کا تابع مانتی تھیں لیکن ہر حال میں ملی تعصب اور ایرانی ہونے کو مورد توجہ قرار دیتی تھیں اور ایرانی آثار اور سنتوں کی بھرپور کوشش کرتی تھیں جن میں سے ایک سنت عید نوروز ہے۔

شاہ جلال الدین ملکشاہ کے زمانے میں سلجوقی بادشاہ تھا عید نوروز کو سال کا آغاز قر ار دیا اور اس نے رسمی طور پر شمسی سال کو حکومتی سال قرار دیا ان حکومتوں میں سب سے زیادہ صفوی حکومت نے فارسی زبان اور انکے آئین کو زندہ رکھنے کی کوشش کی اسکے بعد ایرانی مقتدری جیسے سامانی جو ایران کی پرانی ثقافت ، خراسان کی وجہ سے وجود میں آئے تھے انہوں نے بھی بہت سی پرانی سنتوں کو زندہ اور رائج کیا نوروز کو رائج کرنے کی دوسری وجہ آئین کی تدوین اور لوگوں سے خراج لینے کا مسئلہ ہے، خلفاء آئین اور قانون ایرانیوں سے لیتے تھے اصطخری کہتا ہے کہ ایرانی خلافت کے آئین کو وجود میں لانے والے ہیں اور ان حکومتوں کی آئینی اور سیاسی نظام میں تر قی ایرانیوں کی وجہ سے تھی ۔ اور کیونکہ ایرانیوں کے آئین کی اصل کو ساسانیوں سے لیا گیا ہے لہذا مجبور تھے کہ ان تمام کاموں کو انجام دیں جو ان قوانین میں موجود تھے۔ ایران میں سال کا آغاز شمسی سال سے ہوتا تھا اور تمام امور کا آغازاسی دن سے ہوتا اور اسی طرح کھیتی باڑی کا آغاز اسی مہینہ سے ہوتا تھا لہذا حکومتی عہدیدار نوروز کو بہت اہمیت دیتے تھے ابوریحان بیرونی اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ: یہی شمسی سال ایران کے تحت رہنے والے اسلامی ممالک میں استعمال ہونے لگا اور فارسی نام اور مہینہ بھی انہی کے حساب سے گنے جانے لگے ۔ نوروز کے زندہ رہنے کی تیسری وجہ کچھ افراد اور گروہ تھے جو مستقیماً اسلامی اور عربی ثقافت سے مقابلہ کرنے کے لئے یہ کام کرتے تھے یہ لوگ کوشش کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے رہنے والی ایرانی رسم و رواج کو رائج کرکے لوگوں کو اسلامی ثقافت سے دور کیا جائے اور انکی توجہ اسلام سے پہلے والی رسوم کی طرف مشغول رکھی جائے مقامی حکومت کا وجود جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے اور کچھ انقلاب جیسے “باب خردمین” اور “نہضت شعوبیہ ” کا نام ان سلسلوں میں شامل ہے نمونہ کے طور رپر بے دین شہنشاہ رضا شاہ کے ۲۵۰۰ سالہ شہنشاہی جشن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

مجوسی کون ہیں؟
(إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ الَّذينَ هادُوا وَ الصَّابِئينَ وَ النَّصارى‏ وَ الْمَجُوسَ وَ الَّذينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهيدٌ (الحج/17)
لفط مجوس قرآن میں ایک مرتبہ ذکر ہوا ہے، اور آیت میں مجوس کو ایمان والوں کی صف میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مقابل میں دوسرا گروہ مشرکین کا بیان ہوا ،اس آیت کے مضمون سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجوس اہل کتاب تھے اور اہل دین و آئین الہی تھے جسکی وجہ سے انکو ایمان والوں کی صف میں شمار کیاگیا ہے، اسلامی روایات میں مجوسیوں کو انبیاء کا پیروکار قرار دیا گیا ہے اور بعد میں یہ الہی تعلیمات سے شرک و انحراف کا شکار ہوگئے۔

مکہ کے مشرکین نے پیغمبر اسلام ﷺسے تقاضا کیا کہ ان سے جزیہ لے کر انہیں بت پرستی کی اجازت دے دیں پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: میں اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ نہیں لیتا؟ مشرکین نے جوابی خط لکھا اور کہا : آپ کس طرح یہ کہتے ہیں جبکہ آپ نے منطقہ ھجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان المجوس كان لهم نبى فقتلوه و كتاب احرقوه مجوسیوں کے پاس خدا کا نبی بھیجا گیا انہوں نے نبی کو شہید کردیا اور آسمانی کتاب کو جلادیا،
ایک اور اصبغ ابن نباتہ حضرت علی ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ؑ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي ، مجھ سے پوچھو اس سے پہلے کہ میں تم سے رخصت ہوجاوں :
فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَشْعَثُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ تُؤْخَذُ الْجِزْيَةُ مِنَ الْمَجُوسِ وَ لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِمْ كِتَابٌ وَ لَمْ يُبْعَثْ إِلَيْهِمْ نَبِيٌّ فَقَالَ بَلَى يَا أَشْعَثُ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ كِتَاباً وَ بَعَثَ إِلَيْهِمْ نَبِيّا، اشعث ابن قیس کھڑا ہوا اور کہا مجوسیوں سے کس طرح جزیہ وصول کیا جاسکتا ہے جبکہ ان پر نہ ہی نبی آیا اور نہ ہی کوئی کتاب؟ حضرت علی ؑ نے جواب دیا: خدا نے ان پر نبی بھی بھیجا اور کتاب بھی . ،اسی طرح ایک حدیث میں امام سجادؑ: علی ابن الحسین ؑ سے ملتا ہے کہ انہوں نے فرمایا: عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ سَنُّوا بِهِمْ سُنَّةَ أَهْلِ الْكِتَابِ يَعْنِي الْمَجُوسَ,
پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: ان (مجوسیوں) سے اہل کتاب کے قانون کے مطابق رویہ رکھو ۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا کہ ایرانی جو مجوسی تھے دراصل دین الہی نبی اور کتاب کا حامل تھے اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ان میں انحرافات پیدا ہوئے اور آتش پرست بن گئے، لہذا انکے عقائد اور رسوم کے مطالعے کے وقت اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے۔
نوروز کی حقیقت کیا ہے؟
نوروز سے متعلق کئی اقوال تاریخ میں ملتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہم اس تحریر کے اختصار کے خاطر صرف انکے بارے میں اشارے کررہے ہیں:
ایرانی آئین کی کتاب میں یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ لوگ اس تہوار کو وہ دن مانتے ہیں جس دن “اھور مزدا” (دنیا کے خدا) کو پیدا کیا اس دن کو اسی وجہ سے مبارک مانتے ہیں ایرانی بادشاہ بھی اس دن کو متبرک سمجھتے ہیں اور اپنی مسند نشینی کا آغاز اسی دن سے کرتے تھے زرتشت کو کتاب اور احادیث کی روشنی میں اہل کتاب میں سے مانا گیا ہے اور بعید نہیں کہ نوروز انکے اصل اعتقادات میں سے ہو یعنی قرآن کی زبان میں ایام اللہ ہو اور زمانے کے بدلنے کے ساتھ تحریفات کردیا گیا ہو جس طرح تاریخ میں ملتا ہے کہ کعبہ توحید پرستوں کی عبادت کا مرکز تھا لیکن دور دراز کے رہنے والوں کی لئے مشقت کا سبب ہونے کی بنا پر لوگ وہاں سے پتھر لے جاتے اور اپنے اپنے علاقوں میں انکی پرستش شروع کردی گئی اور یہیں سے شرک اور بت پرستی کی بنیاد پڑی۔

اس سلسلے میں آیات قرآنی سے استفادہ کیا گیا ہے: ( إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ في‏ سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى‏ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهارَ يَطْلُبُهُ حَثيثاً وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّراتٍ بِأَمْرِهِ أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ تَبارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ (اعراف/54)
بیشک تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۰۰۰۰۰
اسی طرح سے توریت میں بھی آسمان اور زمین کی خلقت کے سلسلے میں چھ دن کا ذکر ملتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوروز بھی چھ دن پر مشتمل ہوتی ہے، لہذا ممکن ہے کہ اس دین الہی میں آسمان اور زمین کی خلقت کو ایک Event کے طور پر منایا جاتا ہو اور زمانہ گزرنے کے ساتھ اس میں تحریف ہوگئی ہو۔

یاقوت حموی نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں: حمدان بن سحت جرجانی نے کہا کہ ہم عید نوروز میں ذوالریاستین (فضل بن سہل) کی محفل میں تھے کہ عمر بن رستمی (جو عباسی خلیفہ مامون کا کمانڈر تھا) نجومیوں سے عید نوروز کے بارے میں سوال کیا: کہا گیا : پرانے زمانے میں دجلہ کے آس پاس ایک قوم وبا ئی مرض کا شکار ہوگئی گرچہ انہوں نے اس علاقے سے کوچ کرلیا لیکن مرض کی وجہ سے وہ گویا وہ مرگئے ،خداوند عالم نے اول فروردین (شمسی مہینہ) میں بارش نازل کی جس کی وجہ سے انہیں نئی زندگی نصیب ہوئی اسی مناسبت نے مقامی بادشاہ نے اس دن کا نام نوروزرکھ دیا، جب عباسی خلیفہ مامون کو اس بات کی خبر دی گئی تو اس نے کہا یہ مطلب قرآن میں بھی موجود ہے، اور اس آیت کی تلاوت کی: أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذينَ خَرَجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَ هُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْياهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَشْكُرُونَ.

بطور اختصار آج کل جس تہوار کو نوروز کے نام سے منایا جاتا ہے گرچہ کہ اس کا آغاز ایرانی قدیم مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس زمانے میں اسکو بہار کے آغاز میں ملی Event کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کسی مذہبی عید کے طور پر البتہ مذہبی قابل ستائش و تحسین اُمور انجام دئے جاتے ہیں مثلاً مرحومین کی ایصال ثواب کے لیے قبرستان جانا،اماموں، اولیاء کرام اور امامزادگان کی زیارات کے لیے جانا، صلہ رحمی کے کام انجام دینا یعنی رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنا اور بہار کے موسم کی آمد پر خدا کا شکر بجا لانا اور اِس سے درست استفادہ کرنا بہار کے موسم کو خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھنا اور قدرت کے خوبصورت مناظر دیکھ کر ترو تازگی کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا اور ایک توانائی حاصل کرنا وغیرہ یہ سارے کام نا صرف خلافِ شریعت نہیں ہیں بلکہ قابلِ تحسین اوردینِ اسلام کی طرف سے تائید شدہ کام ہیں۔

ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای نے مختلف سالوں میں عیدِ نوروزپر روشنی ڈالی ہے اِن بیانات میں سے ایک بیان قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
عیدِ نوروز ایک مشرقی اور برجستہ و ممتاز اقدار کی حامل عید ہے۔ درحقیقت عیدِ نوروز ایک علامت ہے،تازگی وشادابی اور نشاط وجوانی کی علامت ہے، ا ِسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور محبت کی علامت ہے،،بھائیوں کا ایک دوسرے کےساتھ ملنا،عزیز واقارب کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت،دوستی کے روابط مظبوط کرنا اوردوستوں اورجاننے والوں کے درمیان مہربانی کے روابط مظبوط بنانا اور کینوں اور دُشمنیوں کو(دِل سے) مٹانے کی ایک علامت ہے کیونکہ بہار کا موسم تازگی اور شادابی کا مظہر ہے،نشاط کا مظہر ہے اور یہ تمام معنی بہار کے موسم میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ہماری قوموں کے لیے ایک امتیاز ہے کہ اُنہوں نے نوروز کو اپنے سال کا آغاز قرار دیا، تاریخ کا نقطۂ آغاز قرار دیا ہے، اِس لیے کہ (بہار کا موسم) اِن تمام برجستہ مطالب کا حامل ہے۔

یہ جشن، ایک قومی جشن ہے ، دینی عیدوں میں سے نہیں ہے، لیکن ہماری شرع مقدس کے اکابرین کی طرف سے بھی نوروزکو تائید حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے پاس ایسی متعدد روایات ہیں کہ جن میں نوروز کی تعظیم و تکریم ہوئی ہے اور نوروز کے دِن کو محترم سمجھا گیا ہے۔ یہ چیز اِس بات کا سبب بنی ہے کہ نوروز،انسانوں کی پروردگار کے سامنے عبودیت کے اظہار کا وسیلہ بنے اور پروردگار کے سامنے انکساری کا وسیلہ بنے۔ درحقیقت یہ انسان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی یاد سے بھی تازگی اور نشاط بخشے۔
2010-03-27