ولی امرِ مسلمین سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ:
کچھ لوگ اسلام کو ایک انفرادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے سیاست کو اسلام سے الگ سمجھتے ہیں، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہجرت کے آغاز پر یعنی مکہ کی دشوار ترین زندگی سے چھٹکارا پاتے ہی جو پہلا کام انجام دیا، وہ سیاست ہی تھا۔

ایک اسلامی معاشرے کا وجود، اسلامی نظامِ حکومت کا قیام، افواجِ اسلامی کا قیام اور دنیا کے بڑے بڑے سیاستدانوں (حکمرانوں)کے نام خطوط لکھنا، اِس دور کے عظیم سیاسی اُمور ہی تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاست کو اسلام سے الگ کیا جائے؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ سیاست کو اسلام کے نظامِ ہدایت کے علاوہ کسی اور نظام کے حوالے کیا جائے؟

الّذِینَ جَعَلُوا القرآنَ عِضِینَ۔ ’’ جن لوگوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔‘‘
یُؤمِنُ بِبَعضَ الکِتَابِ وَیَکفُرُ بِبَعضٍ۔ یعنی قرآن کی عبادی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اِس کی سیاسی تعلیمات پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ لَقَدأَرسَلنا رُسُلَنَا بِالبَیِّناتِ وَ أَنزلنَا مَعَھُم الکِتابَ وَ المِیزانَ لِیَقُومَ النّاسُ بِا لقِسطِ۔ یہ قسط کیا ہے؟ قسط یعنی معاشرے میں اجتماعی عدل و انصاف قائم کرنا اور یہ کام کون کرسکتا ہے؟ عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام، ایک سیاسی عمل ہے جو کہ اِس ملک کے حکمرانوں اور مسئولین کا کام ہے اور یہی انبیا علیہم السلام کا ہدف بھی تھا۔ نہ صرف ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، اور دیگر انبیا علیہم السلام کا مقصد اور ہدف سیاست اور اسلامی نظام کا قیام رہا ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 34 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی