یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ خلافت اور اسلام کی حکومت میں اِن تینوں مفاہیم یعنی ’’سیاسی قیادت‘‘، دینی تعلیم و تربیت‘‘ اور ’’تہذیبِ نفس‘‘ کے باہمی امتزاج سے (امامت اور حکومتِ اسلامی کو تین پہلوؤں اور تین ابعاد پر مشتمل قرار دیا گیا ہے کہ جس کی طرف موجودہ دُور کے بعض مفکرین نے بھی اشارہ کیا ہے) یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے اِن تینوں پہلوؤں کے درمیان جدائی کی نفی کرتے ہوئے انسانیت کے سامنے اِن تینوں پہلوؤں پر مشتمل ایک جامع پروگرام پیش کیا ہے۔ لہٰذا اُمت کی قیادت اور رہبری سے مُراد اِن تینوں میدانوں میں قیادت اور رہبری ہے۔ بنابر این امامت کے اِس وسیع معنی و مفہوم کے پیش نظر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام کا انتخاب اور تعیُّن، اللہ تعالٰی کی طرف سے ہونا چاہیے۔

پس ایسے سطحی نظریات اور عقائد کے برخلاف جنہوں نے امامت کو خلافت اور حکومت کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ہے اور اِس کو صرف ایک معنوی منصب اور روحانی و فکری عہدے تک محدود کردیا ہے۔ مکتبِ تشیع میں امام پوری’’ اُمت کا رہبر‘‘ ہوتا ہے؛ یعنی دنیوی اُمور اور لوگوں کی انفرادی زندگی کے نظم و نسق اور اجتماعی اُمور سےمربوط تمام مسائل اور اِسی طرح لوگوں کے روحانی اور معنوی مسائل کا حل اور فکری مشکلات اور عقائدِ اسلامی کی تفسیر و تشریح کی ذمّہ داری بھی امام پر عائد ہوتی ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 73 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی