جب شیعہ کسی کو اپنا امام تسلیم کرتے تھے تو وہ اس سے صرف سیاسی اور اجتماعی مسائل کی دیکھ بھال کی توقّع نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اس سے فکری تربیت، دینی تعلیم اور تزکیہ نفس کی توقّع بھی رکھتے تھے اور اگر کوئی امامت کا دعویدار اِن ذمّہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا تو وہ ایسے شخص کو ’’امامِ برحق‘‘ نہیں مانتے تھے۔ مکتبِ تشیّع میں صرف سیاسی بصیرت، جنگی قدرت و طاقت اور کشور کشائی جیسی صفات پر (جنہیں دیگرمکاتبِ فکر میں قیادت کی صلاحیت کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا) اکتفا نہیں کیا جاتا تھا۔ مکتبِ تشیع میں رائج امامت کے مفہوم کے مطابق، کسی معاشرے میں بسنے والے تمام لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اُمور کی بہترین انداز میں دیکھ بھال کی قدرتِ فائقہ کا حامل انسان ہی امامِ وقت کہلانے کا اہل ہوسکتا ہے، جو ایک ہی وقت میں لوگوں کے دینی معاملات بھی سُدھارتا ہو اور اِن کی اخلاقی تعلیم و تربیت اور سیاسی اُمور کی دیکھ بھال بھی کرتا ہو۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 73 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی