امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اگر صلح نہ کرتے تو خاندانِ رسالت کے تمام افراد مارے جاتے اور معاویہ ان میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑتا کہ وہ اسلام کی اصلی اقدار کی حفاظت کرسکیں۔ سب کچھ ختم ہو جاتا اور اسلام کا نام لینے والا کوئی باقی نہ بچتا اور واقعہ عاشورا کی نوبت بھی نہ آتی۔ یعنی اگر امام حسن علیہ السلام، معاویہ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھتے تو اس کے نتیجے میں خاندانِ رسالتؐ کے تمام افراد شہید ہو جاتے۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ حجر بن عدیؓ جیسے اور بھی نامور اصحاب قتل کردیئے جاتے۔ کوئی ایسا شخص باقی ہی نہیں بچتا جو اسلام کی حقیقی اقدار کی حفاظت کرسکے۔ اس لیے امام حسن علیہ السلام نے صلح کی اور یہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا اسلام پر بہت بڑا احسان ہے۔ (11۔04۔1990) البتہ صلح امام حسن علیہ السلام ایک زبردستی کی صلح تھی لیکن پھر بھی ایک صلح واقع ہوئی تھی، لیکن امام حسن علیہ السلام دل سے اس کے لیے راضی نہ تھے۔ اس لیے امام حسن علیہ السلام نے جن شرائط پر معاویہ کے ساتھ صلح کی، ان شرائط نے معاویہ کی سیاست کو متزلزل کر دیا تھا۔ صلح امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اور اس کی شرائط بھی ایک الہٰی تدبیر تھی’’ وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَاللہ‘‘

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 150 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی