اسلام قدرت کا ایک مظہر ہے اور دیگر مظاہر کی طرح اِسے بھی مختلف قسم کے خطرات درپیش ہیں، لہٰذا اسے اِن خطرات سے مقابلے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے اور اللہ تعالٰی نے اِن وسائل کو خود اسلام کے اندر ہی رکھا ہے۔ لیکن (سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ) وہ خطرات کونسے ہیں؟ اسلام کو دو مخصوص قسم کے خطرات درپیش ہیں، اِن میں سے ایک بیرونی دشمن کا خطرہ اور دوسرا اندرونی انتشار کا خطرہ ہے۔

بیرونی دشمن سے مراد وہ عناصر ہیں جو سرحدوں کے باہر مختلف قسم کے اسلحوں سے لیس ہوکر کسی نظام کے وجود، اس کی فکر اور اس کی اعتقادی بنیادوں، اس کے قوانین اور دیگر تمام چیزوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سرحدوں کے باہر سے یعنی کیا؟ اس سے مراد ملک کی سرحدیں نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد نظام سے باہر ہونا ہے، چاہے وہ ملک کے اندر ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ (ہر ملک کے) بعض دشمن ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو اس ملک کے نظام سے لا تعلق سمجھتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ وہ اجنبی لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جدید ترین اسلحوں، پروپیگنڈوں، مال و دولت اور دیگر مختلف اقسام کے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں، یہ دشمن کی ایک قسم ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 175 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی