امام زین العابدین علیہ السلام کا عظیم ترین کارنامہ یہی ہے کہ آپؑ نے اسلام کے بنیادی افکار و نظریات توحید، نبوّت، انسان کی معنوی حیثیت، خدا اور بندے کے درمیان رابطہ نیز دیگر اہم موضوعات کو مدوّن و مرتّب کردیا۔ چنانچہ زبور آلِ محمدؑ یعنی صحیفہ سجّادیہ کی اہم ترین خصوصیت یہی ہے۔ اگر آپ صحیفہ سجّادیہ کا مطالعہ کریں اور اِس کے بعد اس زمانے کی عام اسلامی فکر کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ دونوں کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ نظر آتا ہے۔ جس زمانے میں پورا عالمِ اسلام مادّیت میں گرفتار اپنی مادی ضروریات و خواہشات کی تکمیل میں سرگردان ہے، خلیفۂ وقت (عبدالملک بن مروان) سے لے کر اس کے اردگرد بیٹھنے والے علماء تک (مثال کے طور پر محمد بن شہاب زہری جیسے درباری علماء) سب کے سب مفاد پرستی و دنیا طلبی میں غلطاں نظر آتے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کی اسلامی حمیّت کو للکارتے ہیں’’ أَوَلَا حُرّ یَدَعُ ھَذِہِ اللُمَاظَۃَ لِأَھلِھَا‘‘ آیا (تم میں) کوئی ایسا آزاد مرد نہیں ہے جو اِس دریدہ دہن حریص کتے کا بَچَا کُھچا اس کے اہل کے لیے چھوڑ دے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 249 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی