تمام اسلامی آثار میں دو شخصیات ایسی ہیں جن کو ’’ثَارَاللہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ البتہ فارسی زبان میں ہمارے پاس اس عربی لفظ ’’ثار‘‘ کا کوئی متبادل نہیں پایا جاتا، جس کو ہم پیش کرسکیں۔ عربی میں اس وقت لفظِ ’’ثار‘‘ استعمال ہوتا ہے جب کسی خاندان کا کوئی فرد ظلم و ستم کے ذریعے قتل کر دیا جاتا ہے اور مقتول کا خاندان خون بہا کا مالک ہوتا ہے اسی کو ’’ثار‘‘ کہتے ہیں کہ یہ خاندان والے خون بہا کا حق رکھتے ہیں، اگر اس کے معنی میں کہیں خونِ خدا کہا جاتا ہے تو یہ لفظِ ’’ثار‘‘ کی ایک ناقص اور بہت نارسا تعبیر ہے، اس کا مکمل مفہوم اس سے واضح نہیں ہوتا، تاریخِ اسلام میں دو لوگوں کا نام آیا ہے کہ جن کے خون بہا کا حق خدا کو ہے، ان میں سے ایک امام حسین علیہ السلام ہیں اور دوسری شخصیت آپؑ کے والد گرامی امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہیں: ’’یَا ثَارَاللہِ وَابنَ ثَارِہِ‘‘ یعنی آپؑ کے والد بزرگوار کے خون بہا کا حق بھی خداوندِ کریم کو ہے۔

آج آپ دنیا پر نظر ڈالیں تو نہ صرف دنیائے اسلام، بلکہ دنیا میں علی علیہ السلام کے گن گانے والے موجود ہیں یہاں تک کہ جو لوگ اسلام کو نہیں مانتے وہ بھی علی بن ابی طالب علیہ السلام کو تاریخ کی ایک درخشاں شخصیت کے طور پر قبول کرتے ہیں اور یہ وہی درخشاں حقیقت ہے جس کی تابندگی آشکار ہوئی ہے۔ یہ وہ انعام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی مظلومیت کے صلے میں عطا فرمایا ہے۔ آپؑ کی وہ مظلومیت، آپؑ کا گھلا گھونٹنے کی وہ کوششیں، آپؑ پر ناروا تہمتیں لگا کر خورشید کے چہرے کو دُھندلا کرنے کی کوششیں اور ان تمام چیزوں کے مقابلے میں آپؑ جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ انعام تو ہوگا۔ آپؑ کے لیے اللہ کا انعام یہ ہے کہ ہم تاریخِ بشریت میں کوئی ایسا چہرہ نہیں دکھا سکتے جو آپؑ سے زیادہ تابناک، درخشاں اور تمام لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 2 [ص] 108 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی