آپ (امیرالمومنین امام علی) علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’لَا تَمنَعَنَّکُم رِعَایَۃُ الحَقِّ لِأِحَدعَن اِقَامَۃِ الحَقِّ عَلَیہِ‘‘ یعنی اگر کوئی انسان مومن ہے، کوئی مجاہد فی سبیل اللہ ہے، اس نے زحمتیں اُٹھائی ہیں، محاذ جنگ پر رہا ہے، بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں؛ تو ایسے شخص کے حقوق کا احترام کرنا تم پر واجب ہے اور اگر کسی موقع پر یہی شخص کوئی خطا کرے اور کسی کا حق ضائع کردے تو اس کے سابقہ کارناموں کو اس خطا کی سزا دینے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے؛ لہٰذا مسائل کو ایک دوسرے سے الگ الگ کریں۔ اگر کوئی اچھا آدمی ہے، کوئی اہم شخصیت ہے، اس کا ماضی شاندار رہا ہے، اس نے اسلام اور مملکت کے لیے زحمتیں اُٹھائی ہیں تو بہت اچھا، اس کا حق محفوظ ہے اور وہ ہمارے لیے قابلِ احترام ہے۔ لیکن اگر یہی شخص کوئی خطا کر بیٹھے تو اس کی گزشتہ اچھائیوں کی وجہ سے اس کی اس خطا کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہی امیرالمومنین علیہ السلام کی منطق ہے۔

نجاشی نامی ایک شاعر جس کا شمار امیرالمومنین علیہ السلام کے چاہنے والوں اور آپؑ کے مداحوں میں ہوتا تھا جس نے جنگ صفین میں اپنے بہترین اشعار کے ذریعے لوگوں کو معاویہ کے خلاف جنگ پر ابھارا تھا، جو اخلاص، ولایت پذیری اور اپنے سابقہ کارناموں کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس نے ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک میں شراب نوشی کی اور جب امیرالمومنین علیہ السلام کو اطلاع ملی تو آپؑ نے فرمایا: شراب نوشی کی سزا تو معیّن ہے اسے لایا جائے تاکہ اس پر حدّ جاری کی جاسکے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے اُس پر شراب نوشی کی حدّ جاری کی اور اسے کوڑے مارے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 102 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی