امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زندگی کا ایک اور پہلو آپؑ کا اندازِ حکومت ہے۔ جب اِس عظیم اور بزرگ ہستی نے نظامِ حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس مختصر سی مدّت میں وہ کارنامے انجام دیئے کہ اگر سالہا سال بھی دنیا کے لکھاری لکھتے رہیں، تصویر کشی کرنے والے اس کی تصویر کشی کرتے رہیں اور مؤرخین قلم چلاتے رہیں پھر بھی جو کچھ لکھا جائے، کہا جائے یا اس کی تصویر کشی کی جائے کم ہے، امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دورِ حکومت میں آپؑ کا طرزِ زندگی خود ہی ایک قیامت ہے، آپؑ نے تو حکومت کا معنی ہی بدل کر رکھ دیا۔ آپؑ ایک الٰہی حکومت کا مظہر تھے۔ آپؑ مسلمانوں کے درمیان مجسم آیاتِ قرآنی اور ’’أَشِدَّآءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَینَھُم‘‘ کے کامل مصداق اور مجسمۂ عدلِ مطلق تھے۔ آپؑ فقیروں اور غریبوں کو اپنے قریب رکھتے تھے: ’’کَانَ یُقَرِّبُ المَسَاکِینَ‘‘ معاشرے کے پسماندہ اور محروم افراد کا خاص خیال رکھتے تھے اور جو لوگ مال و ثروت کی وجہ سے خود کو ناحق بڑا اور بزرگ ظاہر کئے ہوئے تھے، آپؑ انہیں مٹی کے برابر سمجھتے تھے آپؑ کی نظر میں جو چیز قیمتی تھی وہ ایمان، تقویٰ، اخلاص و جہاد اور انسانیت سے عبارت تھی۔ آپؑ نے اسی طرزِ تفکر کے ساتھ پانچ سال سے بھی کم عرصہ حکومت کی۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی لکھنے والے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خوبیاں لکھ رہے ہیں مگر پھر بھی ابھی تک بہت کم لکھا گیا ہے اور اچھے اچھے مصنّفین اور دانشور اس باب میں اپنی عاجزی و ناتوانی کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔(1991۔01۔30)

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 85 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی