امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اپنے عمل، اپنی سیرت اور طرزِ حکومت کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اگر نظامِ حکومت علی علیہ السلام جیسے مقتدر خلیفہ کے ہاتھ میں ہو تو پھر توحید، عدل و انصاف، لوگوں کے درمیان مساوات اور برابری جیسے نبویؐ دور کے اصول اب بھی قابل اجراء ہیں۔ یہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے تاریخ نے محفوظ کردیا ہے۔ اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس طریقہ کار کو آگے نہیں بڑھایا گیا، لیکن آپؑ نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر مملکتِ اسلامی کا سربراہ، اسلامی معاشرے کے قائدین اور مسئولین، اگر راسخ عقیدے کے ساتھ عمل کرنا چاہیں تو انہی اصولوں کو ایک وسیع و عریض مملکت پر بھی لاگو کر سکتے ہیں اور انہیں لوگوں کے لیے فائدہ مند بھی بنا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ جیسے ایک ایسے معاشرے میں عدل و انصاف سے کام لینا، جہاں کی کل آبادی دس سے پندرہ ہزار افراد پر مشتمل تھی اور ایسے معاشرے میں عدل و انصاف سے کام لینا، جہاں کی آبادی لاکھوں بلکہ کروڑوں نفوس پر مشتمل ہو جیسے امیرالمؤمنین علیہ السلام کا دور، تو اِن دونوں میں بڑا فرق ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس کام کو عملاً کر کے دکھایا۔ میں یہاں پر امیرالمومنین علیہ السلام کے چند اقدامات کا تذکرہ کروں گا جو خود آپؑ ہی کے بیانات اور احکامات سے واضح ہوجاتے ہیں، اگرچہ آپؑ زندگی میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 99 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی