انتظارِ فَرج کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتظار ایک عمل ہے بے عملی نہیں۔ ہمیں غلط فہمی میں رہتے ہوئے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ انتظار کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کچھ ہونے کے منتظر رہیں، بلکہ انتظار ایک عمل کا نام ہے، تیاری اور آمادگی کا نام ہے، اپنے دل و دماغ کو تقویت پہنچانے کا نام ہے۔ انتظار کا مطلب انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں نشاط و تازگی کے ساتھ تلاش و جستجو ہے۔ انتظار حقیقت میں اس آیتِ مجیدہ کی تفسیر کا نام ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَي الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّه وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ۔’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیدیں۔’’(سورہ قصص، آیت 5)، اِسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّـهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔’’-زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے وارث بناتا ہے اور انجام کار بہرحال صاحبانِ تقوٰی کے لئے ہے‘‘۔(سورہ اعراف۔ آیت 128) یعنی اقوام اور ملتوں کو کبھی بھی فرج و کشادگی سے مایوس اور نااُمید نہیں ہونا چاہیے۔ اُس وقت جب ایرانی قوم نے (جبر و استبداد کے خلاف) قیام کیا تھا تو اس نے بھی اِسی اُمید کی بنا پر قیام کیا تھا اور آج اس کی وہ اُمید پوری ہوگئی ہے اور اُس نے اپنے اِس قیام سے ایک بہت بڑا نتیجہ حاصل کیا ہے اور آج بھی اپنے مستقبل سے اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے پورے نشاط و تازگی کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ یہ اُمید کا نور ہی ہے جو جوانوں کے اندر جذبہ، شوق اور ہیجان پیدا کردیتا ہے، دلوں سے افسردگی اور نااُمیدیوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور معاشرے کے اندر تحقیق و جستجو کے جذبے کو زندہ کردیتا ہے۔ یہی انتظارِ فرج کا نتیجہ ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 437 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی