آپ تاریخ اُٹھا کر امیرالمؤمنین علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپؑ اپنے بچپن سے، جب آپؑ نو یا تیرہ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی نبوّت۔۔۔(کے اعلان سے لے کر) اور مکمل فہم و فراست اور شعور کے ساتھ حقیقت کو پہچان کر اس سے متمسک ہونے سے لے کر اس وقت تک جب آپؑ نے انیس رمضان المبارک کی صبح محرابِ عبادت میں اپنی جان راہِ خدا میں قربان کردی، یعنی لقائے الہی کے شوق میں خوشی خوشی اپنی جان آفرین کے سپرد کردی، تقریباً ان پچاس، باون یا تریپن سالوں میں، یعنی دس سال سے لیکر تریسٹھ سال تک کے آپؑ کے کردار میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے اور وه تسلسل ایثار و قربانی اور اپنی جان کے لیے خطرات کو مول لینا ہے۔ اس پچاس سالہ تاریخ میں امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جن حالات کا سامنا کیا وہ ابتدا سے لیکر آخر تک مسلسل ایثار و قربانی سے بھرپور ہیں، یہ ہمارے لیے درس ہے۔ میں اور آپ جیسے لوگ جو ہمیشہ یا علیؑ کہتے رہتے ہیں اور دنیا میں علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے نام سے معروف ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم امیرالمؤمنین سے درس حاصل کریں۔ صرف علی علیہ السلام کی محبت یا علی علیہ السلام کے فضائل کی شناخت کافی نہیں ہے۔ ایسے لوگ بہت تھے جو دِل سے علی علیہ السلام کے فضائل کا اعتراف کرتے تھے ان میں سے بعض لوگ تو علی علیہ السلام کو ایک پاکیزہ اور معصوم انسان بھی مانتے تھے، لیکن ان کے کردار اور علی علیہ السلام کے کردار میں فرق تھا کیونکہ وہ علی علیہ السلام کی خصوصیات کو اپنا نہیں سکتے تھے؛ یعنی وہ اپنی ذات اور خود پسندی کے حصار میں پھنسے ہوئے تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں گرفتار نہیں تھے۔ لفظ ’’میں‘‘ کی آپؑ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ آپؑ کے ہاں جس چیز کی اہمیت تھی وہ ذمہ داریاں، اہداف اور جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ تعالٰی کی ذات تھی۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 86 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی