ایک مرتبہ مسلمان لشکر سخت جنگ کرکے لوٹا تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: ’’مرحبا ہو تم پر کہ تم لوگوں نے جہادِ اصغر تو سَر کر لیا اور اب جہادِ اکبر باقی رہ گیا ہے‘‘۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ اِس سے بڑا کونسا جہاد ہو سکتا ہے؟ لہٰذا پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! جہادِ اکبر کیا ہے؟ ہم نے اتنی سخت جنگ لڑی، بڑی زحمتیں اُٹھائیں، صعوبتیں جھیلیں، مصیبتیں برداشت کیں، اب اِس سے بڑھ کر جہاد کیا ہو سکتا ہے؟! آپؐ نے فرمایا: ’’ وہ ہے نفس کے ساتھ جہاد‘‘ جب قرآن میں ارشاد الہٰی ہوتا ہے: ’’اَلَّذِینَ فِی قُلُوبِھِم مَرَض‘‘ تو اِس آیت میں جن کے دِلوں میں مرض بتایا گیا ہے وہ سب کے سب منافق نہیں ہیں، بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہے کہ منافقین بھی اِس آیت کے مصداق ہیں، یعنی عین ممکن ہے کہ ایک شخص منافق نہیں بلکہ مؤمن ہے مگر اِس کے دِل میں ’’مرض‘‘ پایا جاتا ہو۔ یہ کون سا مرض ہے؟ یہ کیسی بیماری ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ اخلاقی اور کردار کی کمزوریاں، نفسانی خواہشیں اور مختلف قسم کی خود غرضیاں ہیں کہ اگر اِن سے پرہیز نہ کیا گیا اور اِن کا مقابلہ نہ کیا گیا تو انسان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ اِس کا ظاہر تو مؤمنوں جیسا ہوگا لیکن دِل ایمان سے خالی ہوگا اور اِس کو اسلام کی اصطلاح میں’’ منافق‘‘ کہا جاتا ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 56 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی