اس خدا کا شکر ہے جوعالمین کا پالنے والا ہے جو مجاہدین اور شہدا کا آدمؑ سے لے کر روز قیامت تک پروردگار ہے۔ دنیا مومن کے لیے زندان ہے اور کافر کے لیے جنت ہے، دنیا دھوکے اور معصیت والی چیزوں سے بھری ہوئی ہے اور یہ دارِفنا ہے نہ دارِبقا۔ مومن اس میں زیادہ امید نہیں رکھتا اور اس کی موت قریب ہے پس خداوند متعال کی ملاقات کامشتاق ہے اور اس سے خوشی اور راضی ہو کر ملاقات کرنے کا شوق رکھتا ہے، یہ ملاقات کس طرح ہوگی؟ جب کہ اس کی راہ خدا میں شہادت نہ ہوئی ہو کہ یہ خداوند متعال تک پہنچنے کا نزدیک ترین راستہ ہے۔

مجاہد بھائیو! آپ کو مقاومت اسلامی کے راستے پر چلنے کی وصیت کرتا ہوں، حالات کتنے ہی سخت یا پُرفریب کیوں نہ ہوں لیکن اس راستے کو نہ چھو ڑیں۔ کیونکہ اگر خدا نخواستہ اس راستے کو چھوڑ دیا تو نہ عزت ہاتھ آئے گی اور نہ نصرت، جب کہ امیرالمومنینؑ نے فرمایا ہے کہ جہاد بہشت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے کہ جسے خداوند متعال اپنے خاص بندوں کے لیے کھولتا ہے۔

عزیز بھائیو! میں کسی لذّت کوصہیونی دشمن کے ساتھ مقابلے کہ جو خدا اور بشریت کے دشمن ہیں سے بہتر نہیں سمجھتا، میں جب تک اپنے وظیفہ کو انجام نہ دے دوں سکون سے نہیں بیٹھوں گا، ان کے ساتھ جنگ کرنا اور ان کو شکست دینا، ہمیں اجازت نہیں ہے کہ دشمن کو آرام سے بیٹھنے دیں، ہمیں اس کو مصروف رکھنا چاہیے تاکہ اور زیادہ اس کے وجود کو متزلزل کر دیں اور یہ فطری بات ہے کہ یہ چیز اپنے نفس کو شکست دینے اور تزکیہ نفس کے بعد ہی ہو سکتی ہے، یہ بات باعث بنتی ہے کہ ہم روحانی طور پر اس ظالم دشمن کو شکست دینے اور اسے اسلامی سرزمین سے باہر نکالنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

یقین رکھو کہ جس راستے پر چلے ہیں یہ بہترین راستہ ہے اور چونکہ خدا کی خوشنودی، نیک اعمال اور مومینن کی خدمت اور اچھے سلوک سے حاصل ہوتی ہے۔ خصوصاً خدا کی راہ میں جہاد ہر ممکن وسیلہ سے مسلمانوں اور مومینن کے دفاع کرنے سے اور ان کی مدد کرنے سے خوشنودی خدا حاصل ہوتی ہے اسی طرح ایثا ر، فداکاری، اور اپنی جان کو قربان کرنے میں خوشنودی خدا ہے۔

آخر میں ہر کسی کو اور جو سن رہا ہے اور جو اس وصیت نامہ کو پڑھ رہا ہے وصیت کرتا ہوں کہ خطِّ مقدس جہاد سے جدا نہ ہوں، یہ خط، خطِ ولایت اہل بیتؑ ہے، خطِ ایمان حقیقی ہے، خصوصاً جب نہ مال اور نہ اولاد ہمیں فائدہ پہنچا سکے گی سوائے اس کے جو قلبِ سلیم کے ساتھ خدا کے پاس آئے گا۔

(والسلام علیکم)