ایک: سائنس اور تحقیق
سائنس اور تحقیق ایک مملکت کی عزّت اور طاقت کا ایک واضح وسیلہ ہیں۔ دانائی کا دوسرا رُخ توانائی ہے۔ مغربی دنیا اپنے (سائنسی) علم کے زور پر ہی اپنے لیے دوسو سالہ طاقت، اقتدار اور اثرورسوخ فراہم کر پائی اور اخلاقی و اعتقادی بنیادوں میں مفلسی کے باوجود سائنس میں پیچھے رہ جانے والے معاشروں میں مغربی طرز زندگی کو ٹھونس کر اُن کی سیاست اور اقتصاد کی باگ ہاتھ میں لے لی ہے۔ ہم سائنس سے مغرب کی طرح غلط فائدہ اٹھانے کی بات نہیں کرتے، لیکن تاکید کے ساتھ ملکی ضرورت کے لیے سائنس کے چشموں کو اپنے یہاں نکالنے پر اصرار ضرور کرتے ہیں۔ الحمد للہ سائنس اور تحقیق میں ہماری قوم کی استعداد دنیا کی اوسط سے اوپر ہے۔ آج تقریباً دو دہائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک میں ایک سائنسی احیا کا آغاز ہو چکا ہے جو عالمی مبصرین کی نظروں کو خیرہ کر دینے والی تیزی سے، یعنی دنیا کی سائنسی ترقّی کی متوسط رفتار سے ہم گیارہ گنا تیز رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہماری جو کامیابیاں اِس عرصے میں ہمیں دوسو سے زائد ممالک کے بیچ سولہویں نمبر پہ پہنچا چکی ہیں، اور بعض حسّاس اور نئے علمی شعبوں میں پہلے نمبر پہ لے آئی ہیں، عالمی مبصرین کے نزدیک حیرانی کا باعث ہیں۔ یہ سب اِس حال میں ہوا ہے کہ ہمارا ملک علمی اور اقتصادی پابندیوں سے دوچار تھا۔ ہم دشمن کے بنائے بہاو کے مخالف تیرنے کے باوجود بڑے بڑے نتیجے حاصل کر چکے اور یہ ایک بڑی نعمت ہے جس کا دن رات شکر ادا کیا جانا چاہیئے۔
البتہ جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ طے شدہ راستہ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود، ایک آغاز کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم ابھی عالمی علم کی چوٹیوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں چوٹیوں تک پہنچنا ہے۔ ضروری ہے کہ اہم ترین شعبہ جات میں علم کی موجودہ حدود سے آگے بڑھا جائے۔ ابھی بھی ہم اُس مرحلے سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم نے صفر سے شروع کیا ہے۔ پہلَوی اور قاجاری ادوار کی شرمناک علمی پسماندگی، جبکہ عالمی سائنسی دوڑ تازہ ہی شروع ہوئی تھی، نے ہم پر کاری ضرب لگائی تھی اور ہمیں اِس تیز رو قافلے سے کئی میل پیچھے دھکیل دیا تھا۔ ہم نے ابھی سفر کا آغاز کیا ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اِس تیزی کو سالوں تک اِسی شدّت سے جاری رہنا چاہیئے تاکہ اُس پسماندگی کا ازالہ ہو سکے۔ میں نے مسلسل یونیورسٹیوں اور اُن کے طلباء اور محققین اورتحقیقی مراکز سے پرجوش، صریح اور قطعی انداز میں اِس معاملے میں یہی تذکرہ، انتباہ اورمطالبہ کیا ہے۔ لیکن اب آپ جوانوں سے میرا عمومی مطالبہ یہی ہے کہ اِس راستے کو مزید ذمہ داری کے ساتھ اور ایک جہاد کی مانند آگے بڑھائیں۔ ملک میں ایک سائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور یہ انقلاب ایٹمی توانائی کے شہداء کے علاوہ کئی دیگر شہداء بھی دے چکا ہے۔ اٹھ کھڑے ہوجائیں اور آپ کی سائنسی جدوجہد سے شدّت سے پریشان اپنے بدخواہ اور کینہ توز دشمن کو ناکام بنائیں۔
حوالہ: [کتاب] گام دوم انقلاب [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 35 [پبلشر] انتشارات انقلاب اسلامی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1