ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای:
تین: معیشت
معیشت ایک بنیادی اور فیصلہ کُن عنصر ہے۔ مضبوط معیشت، ملک میں (بیرونی) اثرو رسوخ اورطاقت کی عدم قبولیت کا عامل ہے اور ایک مثبت عنصر ہے۔ اور کمزور معیشت منفی عنصر ہے اوردشمنوں کے نفوذ اور دخالت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ غربت اور دولت، انسان کی مادیات اور روحانیات میں اثر رکھتی ہیں۔ البتہ اسلامی معاشرے کا اصل ٹارگٹ معیشت نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک وسیلہ ضرور ہے جس کے بغیر اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ ملک کی مستقل معیشت کی مضبوطی پر تاکید، جو کہ زیادہ اور اچھی پیداوار، عادلانہ تقسیم، اور ضروری اور اسراف سے پاک استعمال اورعقلمندانہ انتظام کی مناسبت پر مبنی ہے، اور انہی چند سالوں میں جو یہ بات میری طرف سے کئی مرتبہ تکرار ہوئی اور اس پر تاکید رہی ہے، اسی لیے کہ معیشت آج اور آنے والے کل میں معاشرے کی زندگی پر اعلیٰ اثر ڈال سکتی ہے۔
اسلامی انقلاب نے ہمیں طاغوت کے زمانے کے کمزور،غیر مستقل اور فسادی معیشت سے نجات کا راستہ دکھایا لیکن ہلکی کارکردگیوں نے ملکی معیشت کو اندر اور باہر سے چیلنجز سے دوچار کردیا۔ بیرونی چیلنج، پابندیاں اور دشمن کے وسوسے ہیں، جو اندرونی مسئلے کی اصلاح کی صورت میں (وہ بیرونی چیلنجز بھی) کم اثر، یہاں تک کہ بے اثر ہو سکتے ہیں۔ اندرونی چیلنج، بناوٹی کمزوریوں اور انتظامی خامیوں پر مشتمل ہے۔
اہم ترین خامیاں، تیل پرمنحصر معیشت، اقتصاد کے بعض شعبوں کا حکومت کے اختیار میں ہونا حالانکہ حکومتی دائرے میں نہیں ہیں، اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں کے بجائے باہر کی جانب نظر رکھنا، ملک کی افرادی قوّت کی صلاحیتوں سے کم فائدہ اٹھانا، ناقص اور نامتوازن تخمینے، اور آخرکار معیشت کی عملی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا اور ترجیحات کا خیال نہ رکھنا، اور بعض حکومتی اداروں میں اضافی یہاں تک کہ اسراف پر مبنی اخراجات ہیں۔ اِن سب کا نتیجہ، عوام کی زندگی میں مشکلات (پیدا کرنا) ہے، جیسے کہ جوانوں کی بے روزگاری، غریب طبقے کی کم تنخواہیں وغیرہ۔
اِن مشکلات کا حل اقتصادِ مقاومتی کی حکمت عملی ہے، جس کے تمام حصوں (سیکشنز) کے لیے عملی منصوبہ جات مہیا کیئے جانے چاہئیں اور حکومتوں میں قوّت، نشاط اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ اِن کی اتباع اور نفاذ ہونا چاہیے۔ ملکی معیشت کو اندرونی رشد، اور پیداواری ہونے کے ساتھ علمی بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے، اقتصاد کا عوامی کیا جانا اور صرف حکومت کے ذمے نہ کرنا، اور اُن صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے جن کی طرف پہلے اشارہ ہوا، باہر ملک کی طرف رجحان رکھنا۔ (اقتصادِ مقاومتی کی) تدابیر کے اہم حصّے ہیں۔ بلاشبہ حکومت کے اندر موجود ایک جوان، سمجھدار، مؤمن، اور معاشی مہارتوں کا ماہر گروہ یقیناً اِن مقاصد تک پہنچ جائے گا۔ آنے والا دوراِس طرح کے گروہ کی کارکردگی کا میدان قرار پانا چاہئے۔
پورے ملک کے جوان یہ جان لیں کہ تمام راہِ حل ملک کے اندر ہی ہیں۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ معیشتی مسائل صرف پابندیوں کی وجہ سے ہیں اور پابندیاں بھی متکبروں سے مقابلے اور دشمن کے سامنے نہ جھکنے کی وجہ سے لگی ہیں، لہذا اِس کا حل دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنا اور بھیڑئیے کے پنجے پر بوسہ لگانا ہے؛ یہ ایک ناقابل معافی خطا ہے۔ یہ سراسر غلط تجزیہ، اگرچہ کچھ اندرونی غافلوں کی زبان اور قلم سے بھی سرزد ہوجاتا ہے، لیکن اِس کی جڑ باہر کی وہ فکرگاہیں (تھِنک ٹینکس) اور سازش کے مراکز ہیں، جو سو زبانوں میں (ترجمہ ہوکر) پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کے ذہنوں میں اورعوامی افکار میں ٹھونسا جاتا ہے۔

حوالہ: [کتاب] گام دوم انقلاب [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 37 [پبلشر] انتشارات انقلاب اسلامی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1