ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای:
چار: کرپشن کا مقابلہ، اور عدل و انصاف
کرپشن کا مقابلہ، اور عدل و انصاف؛ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ معاشی، سیاسی اور اخلاقی فساد، نظاموں اور ملکوں کے لیے غلاظت کا انبار ہے اور اگر یہ حکومتوں کے وجود پر آ لگے تو اُن کی مشروعیت (یعنی قانونیت) کے لیے مہلک اور تباہ کُن زلزلہ ہے۔ اور یہ چیز اسلامی جمہوریہ کے لیے، کہ جسے رائج مقبولیتوں سے ماوراء اور عوامی مقبولیت سے زیادہ بنیادی مشروعیت (یعنی دینی مشروعیت) کی ضرورت ہے، دوسرے نظاموں کی بنسبت نہایت اہم اور بنیادی ہے۔ مال، مقام اور اقتدار کا وسوسہ یہاں تک کہ تاریخ کی علوی ترین حکومت یعنی خود حضرت امیرالمومنین(ع) کی حکومت میں بھی بعض کو پھِسلا گیا، لہذا اسلامی جمہوریہ میں بھی جہاں کبھی حکمران اور عہدیدار افراد، انقلابی زہد اور سادہ زندگی کی دوڑ لگاتے تھے، اِس خطرے کا واقع ہونا ہرگز بعید نہ تھا اور نہ اب ہے۔ اور اِسی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک کارآمد ادارہ تیز نظروں اور کٹیلے انداز کے ساتھ تینوں مقتدر قوّتوں (انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ) میں ہمیشہ حاضر رہے اور حقیقی معنوں میں فساد (اور کرپشن) کا مقابلہ کرے، بالخصوص حکومتی اداروں کے اندر۔
البتہ اسلامی جمہوری حکومت کے کارکنوں کے درمیان کرپشن کی شرح دوسری بہت سی مملکتوں خصوصاً طاغوتی حکومت کی نسبت جو سراسر فساد اور فساد پرور تھی، بہت کم ہے ۔اور الحمد للہ اِس نظام کےعہدیداروں نے زیادہ تر اپنی حفاظت کی ہے۔ لیکن جتنی بھی ہو، ناقابل قبول ہے۔ سب کو جان لینا چاہیے کہ معاشی پاکیزگی، اسلامی جمہوریہ کے سبھی عہدیداروں کی قانونیت کی شرط ہے۔ اُن سب کو چاہیے کہ لالچ کے شیطان سے بچیں اور حرام لقمے سے اجتناب کریں اور اِس میں خدا سے مدد مانگیں اور حکومتی نظارتی ادارے سختی اور حسّاسیت کے ساتھ کرپشن کے نطفے کی پیدائش اور اُس کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ لڑیں۔ یہ جنگ مؤمن اور مجاہد، پاک ہاتھوں اور نورانی دلوں والے پاک طینت انسانوں کی محتاج ہے۔ یہ جنگ اسلامی جمہوری نظام کی قیامِ عدل کی ہمہ جہتی کوشش کا ایک موثر حصہ ہے، جو اُسے اپنانی چاہیے۔
عدل و انصاف تمام الٰہی بعثتوں کے ابتدائی اہداف کی شروعات ہے اور اسلامی جمہوریہ میں بھی اُسی شان و مقام کا حامل ہے۔ یہ لفظ تمام زمانوں اور سرزمینوں میں مقدس ہے اور سوائے حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی حکومت کے مکمل ترین صورت میں (اِس کا نفاذ) ممکن نہیں۔ لیکن نِسبی لحاظ سے ہرجگہ اور ہر وقت نہ صرف ممکن ہے بلکہ سب کا، بالخصوص حکام اور صاحبانِ اقتدار کا فریضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اِس حوالے سے بڑے قدم اٹھائے ہیں جن کی طرف پہلے مختصر سا اشارہ ہوا۔ البتہ اِس کی وضاحت اور تشریح کے لیے مزید کام انجام پانے چاہئیں (تا کہ اس ذریعے سے) الٹا دکھلانے یا خاموشی اور پردہ پوشی کی سازش ناکام ہوجائے، جو کہ آج انقلاب کے دشمنوں کا ٹھوس منصوبہ ہے۔
اِس سب کے باوجود، میں عزیز جوانوں، کہ ملک کا مستقبل جن کا منتظر ہے، کو صراحت سے کہہ رہا ہوں کہ جو آج تک ہوا اور جو ہونا چاہئے تھا اور وہ جو اب ہونا چاہئے، (اِن تینوں) میں گہرا فاصلہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں عہدیداروں کا دل ہمیشہ محرومیوں کو دور کرنے کے لیے دھڑکنا چاہیے اور گہری طبقاتی دراڑوں پر انہیں نہایت فکرمند رہنا چاہئے۔ اسلامی جمہوریہ میں دولت کمانا نہ صرف جرم نہیں بلکہ اُس کی ترغیب بھی کی جاتی ہے لیکن عوامی ذخائر کی تقسیم میں جانبداری کرنا اور ہتھیانے کے میدان کھولنا اور معاشی دھوکے بازوں کے ساتھ نرمی اختیار کرنا سختی سے منع ہے؛ (کیونکہ) اِن سب کا انجام ناانصافی ہے۔ اِسی طرح، مدد کے محتاج طبقات سے غفلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ باتیں پالیسیوں اور قوانین کی شکل میں کئی دفعہ دوہرائی گئیں لیکن اِن کے درست نفاذ کی خاطر امید کی نظریں آپ جوانوں پر ہیں۔ اور اگر مملکت کے مختلف حصّوں کے انتظام کی باگ مؤمن، انقلابی، سمجھدار اور دانشور جوانوں کو تھما دی جائے، جن کی تعداد الحمد للہ کم بھی نہیں، تو یہ امید پوری ہو جائے گی، ان شاء اللہ۔

حوالہ: [کتاب] گام دوم انقلاب [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 39 [پبلشر] انتشارات انقلاب اسلامی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1