حق پرستوں کے نزدیک جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور جس چیز کو وہ عملی طور پر بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہ ہر قیمت پر اقدار کی حفاظت کرنا ہے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے انہیں ظاہری طور پر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ جانا پڑے۔ اس چیز پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ یعنی حق پرست اگر یہ دیکھتا ہے کہ اس کے قیام سے پورے نظریے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں تو پھر وہ عقب نشینی اختیار کر لیتا ہے اور وہ اس عقب نشینی میں عار بھی محسوس نہیں کرتا۔ جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا فرمان ہے؛ ’’اَلمَوتُ خَیر مِن رُکُوبِ العَار، وَالعَارُ خَیر مِّن دُخُولِ النّارِ‘‘ ذلت کی زندگی سے عزّت کی موت بہتر ہے اور جہنم میں جانے سے ذلّت کی زندگی ہی بہتر ہے۔

یعنی اگر مجھے (شہادت کی مظلومانہ موت) کو قبول کرنا پڑے تو کر لوں گا کیونکہ یہ آتشِ دوزخ میں داخل ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ بعض مقامات پر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعض کاموں کو انجام دیتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے غضب اور عذابِ الٰہی کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہ شرم کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرے اور اپنی ذمہ داری نبھائے، اگرچہ اسے اپنی بات، اپنے نظریے اور اپنے موقف سے پیچھے ہی کیوں نہ ہٹنا پڑے اور یہ کام اللہ تعالٰی کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے ہو۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی زندگی کا ایک بنیادی قانوں ہے اور امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بھی یہ چیز نمایاں نظر آتی ہے۔ امام حسن علیہ السلام ناموافق حالات کی وجہ سے معاویہ کے ساتھ صلح پر مجبور ہوئے، جبکہ اس وقت تک آپؑ مسلسل لشکر پر لشکر روانہ کر رہے تھے، لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کر رہے تھے، لوگوں کو اپنے لشکر میں شامل کر رہے تھے اور خطوط پر خطوط لکھ رہے تھے۔ خلاصہ یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ میں جن کاموں کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں مسلسل انجام دے رہے تھے لیکن جب آپؑ نے دیکھا کہ (اِن حالات میں) آپؑ یہ جنگ جیت نہیں سکتے تو پھر آپؑ نے صلح کو قبول کر لیا۔ جس کی وجہ سے آپؑ کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے آپؑ سے علٰیحدگی اختیار کرلی۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 169 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی